کیا سوشل میڈیا سے دعوتِ دین کا کام نہیں لیا جاسکتا؟ تحریر: عبداللہ یوسف زہبی

0
26

کیا سوشل میڈیا سے دعوتِ دین کا کام نہیں لیا جاسکتا؟
تحریر: عبداللہ یوسف زہبی

دعوتِ دین، اصلاحِ معاشرہ اور تعلیمِ کتاب و سنت کے لیے سوشل میڈیا کسی نعمت سے کم نہیں ۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ یہاں اہل علم کی اکثریت ایک "داعی” کی بجائے "صحافی” کا کردار پیش کر رہی ہے۔صحافی کا کام کسی Hot Issue پر سنسنی خیز خبر پھیلا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور ایک عالم دین اس سے بے نیاز ہوتا ہے۔

عالم دین تو مستقل بنیادوں پر لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے اور ان کی علمی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔۔۔ عرب علما اس سلسلے میں بڑا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کا نام ہی کافی ہے جو حقیقی معنوں میں سوشل میڈیا سے خیر کا کام لے رہے ہیں۔۔۔ دوست ایک بار شیخ کے پیج کی سیر ضرور کریں۔

اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہاں فرقہ واریت کی وہ صورت حال نہیں جسکا ہمیں یہاں سامنا ہے ، اور دوسرے انھیں حکومت وقت کی "کلاس لینے” کیلیے اتنا وقت صرف نہیں کرنا پڑتا۔۔۔۔ ہمارے یہاں یہی دو کام ہوتے ہیں۔۔۔۔ یا حکمرانوں کو گالیاں۔۔۔۔ یا دوسرے مسلک کا آپریشن۔۔۔۔ رہی اپنی عوام کی اصلاح تو اس کے لیے ہم کسی ۔۔۔۔۔۔۔ کے منتظر ہیں۔۔

کسی نے ہمارے رویے پر بڑا مناسب تبصرہ کیا ہے کہ ” مولوی صاحب سو کر اٹھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آج حکومت کی کس پالیسی پر اعتراض کرنا ہے۔۔۔ اگر کچھ نہ ملے تو دوسرے مسلک کے کس مولوی کی کون سی بات کا رد کرنا ہے”.
نوٹ: یاد رہے کہ میں فرق باطلہ و ظالہ کے رد کا مخالف نہیں۔۔۔ بات صرف اتنی ہے کہ خدمتِ دین صرف اسی کام میں محصور نہیں۔

Leave a reply