کوہ نور : تاج برطانیہ، پاکستان، افغانستان اور بھارت — ارشد خان صافی

0
40

ملکہ برطانیہ کے وفات کے تناظر میں کئی تاریخی واقعات و نوادرات کے علاوہ کوہ نور ہیرے کا تذکرہ بھی پھر سے ہونے لگا جو کہ اب شاہی قانون کے تحت بادشاہ بننے والے شہزادہ چارلس کی بیگم کامیلا پارکر کو منتقل ہوجائیگا! کچھ دوستوں کی گزارش پر اس تاریخی نادر پتھر اور شاہی زیور پر مختلف ممالک کی دعویداری کے قانونی پس منظر پرکچھ گزارشات حسب ذیل ہیں:

مرغی کے چھوٹے انڈے کے سائز کا ہیرا کوہ نور عام تاثر کے برعکس نا تو دنیا کا سب سے بڑا ہیرا ہے اور نا ہی یہ مغلوں کے جواہرات کے خزانے کا سب سے شاندار ہیرا تھا لیکن قرون وسطیٰ سے لیکر آج تک کئی عظیم شاہی خاندانوں کے تاج و تخت کی زینت بننے اور عالمی محلاتی سیاست میں اسکے کردار کی وجہ سے یہ آج دنیا کے بیش قیمت بلکہ انمول نوادرات میں سرفہرست ہے-

تخت برطانیہ کے تصرف میں یہ ہیرا 1849 میں دوسرے اینگلو-سکھ جنگ کے برطانوی فتح کیساتھ اختتام پر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی اور رنجیت سنگھ کے 11 سالہ پوتے اور جانشین دلیپ سنگھ کے درمیان معاہدہ لاہور کے تحت آیا جس کےساتھ تخت لاہور پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کے دوران 39 سالہ سکھ راج کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا-

لارڈ ڈلہوزی نے پنجاب کو برٹش انڈیا میں شامل کرکے کوہ نور ہیرے کے ساتھ دلیپ سنگھ کو بھی ملکہ وکٹوریہ کے پاس برطانیہ بھیج دیا تھا جہاں پر بعد میں وہ عیسائی مذہب اختیار کرکے برطانوی اشرافیہ کا حصہ بن گیا- دلچسپ بات یہ ہے کہ اس "معاہدے” کو میری ناقص معلومات میں کبھی برطانوی حکومت نے کوہ نور پر تاج برطانیہ کی ملکیت کے واحد قانونی جواز کے طور پر پیش نہیں کیا- اسکی وجہ ظاہر ہے یہی ہےکہ برطانیہ کے اپنے کامن لاء کیمطابق بھی ایک نابالغ لڑکے کے ساتھ جبر کی حالت میں کے گئے معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے-

اسکے برعکس ہیرے پر ہر دعوے کے جواب میں برطانیہ کے سرکار کا عمومی سادہ سا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہیرے کے تاریخی طور پر کئی دعویداروں کی موجودگی میں اسکی ملکیت کے معاملے کو حل کرنا ممکن نہیں جن میں کئی افراد کے علاوہ بھارت، پاکستان اور افغانستان کی ریاستیں بھی شامل ہیں لہٰذا یہ تاج برطانیہ کے پاس ہی بہتر ہے-

کوہاٹ (خیبر پختونخوا) میں شاہی پسمنظر کی بدولت انگریز دور میں جاگیر رکھنے والے احمد شاہ ابدالی کے خاندان کے پرنس سلطان سدوزئی کے خاندان کے ایک فرد نے درانی سلطنت کے ایک جانشین کی حیثیت سے 1993 میں آنجہانی ملکہ الزبتھ کو ایک خط لکھ کر کوہ نور کو انکے خاندانی وراثت کے طور پر پاکستان واپس کرنے کی درخواست کی تھی-

جواب میں 18 اکتوبر 1993 کو لکھے گیے ایک خط میں بکنگھم پلس کے رائل کولکشنز کے ایدمنسٹریٹر ڈنیل ہنٹ نے ملکہ کی توسط سے خط کیلئے شکریہ اور ابدالی کے خاندان کیلئے احترام کے جذبات کے ساتھ انتہائی مہذب انداز میں اسی بنیاد پر ان کی درخواست رد کردی تھی کہ بوجوہ اس ہیرے کے بیشمار دعویدار ہیں-

کوہ نور پر متعدد قانونی دعویداروں کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ یہ ہیرا کچھ روایات اور مستند تاریخ کیمطابق قرون وسطیٰ (چودھویں صدی عیسوی سے پہلے) میں جنوب مشرقی بھارت کے ساحلی ریاست اندرا پردیش میں کرشنا دریا کے کنارے کلور کے کانوں میں نکالا گیا تھا- مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدّین بابر کی سولہویں صدی میں لکھی سوانح حیات تزک بابری کے مطابق مغلوں سے پہلے دہلی کے سب سے طاقتور مسلمان حکمران علاالدّین خلجی نے چودھوی صدی کےاوائل میں جنوبی ہند میں اپنے فتوحات کے دوران اس ہیرے کو دکن کی مقامی کاکٹیا حکمرانوں سے چھینا تھا-

سلطان علاالدّین خلجی اصلی نام علی گرشاسپ تھا اور وہ موجودہ افغانستان کے زابل صوبے میں قلات خلجی کے ترکمن سردار شمس الدین مسعود کا بیٹا تھا- خلجی سلطنت کے بعد کوہ نور تغلق، سیدوں اور لودھی پٹھانوں سے ہوتے ہوۓ مغل شہشاہوں کے ہاتھ آیا اور مغلوں کے عروج کے دور میں تاج محل کے معمار شاہجہان نے اسے کئی دوسرے جواہرات کے ساتھ اپنے مشہور تخت طاؤس کا حصہ بنایا! سو سال بعد مغلوں کے زوال کے دورکے نااہل ترین عیاش حکمران محمد شاہ رنگیلاکے رہے سہے سلطنت پر 1739 میں جب ایران کے آتش مزاج پادشاہ نادر شاہ افشار نے حملہ کیا تو دہلی کے لوٹ مار کے ساتھ تخت طاؤس اور کوہ نور بھی ایران لے گیا- ملتان میں پیدا ہونے والے جوان سال پشتون احمد شاہ ابدالی جنہوں نے بعد میں کندھار اور لاہور کو اپنے مراکز بنا کرموجودہ افغانستان اور پاکستان پر مشتمل درانی سلطنت بنائی اس وقت نادر شاہ کے پسندیدہ کمانڈر کے طور پر ایرانی فوج کے افسر تھے-

نادر شاہ کے اچانک قتل کے بعد دشمنوں سے خوفزدہ انکے نواسے نے اپنی حمایت کے عوض کوہ نور احمد شاہ ابدالی کو دے دیا اور اس طرح بعد میں یہ دبنگ احمد شاہ بابا کے عیاش کابلی نواسے اور درانی سلطنت کے سب سے نااہل کابلی حکمران شاہ شجاع کو وراثت میں مل گیا-

1813 میں شاہ شجاع نے رنجیت سنگھ اور خطے میں قدم جماتے انگریزوں کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت کابل اور کندھار کی حکمرانی کو انکے حریف برکزئی امیروں کے قبضے سے واپس چھڑانے میں مدد اور پنجاب میں پناہ کے بدلے نا صرف کوہ نور رنجیت سنگھ کے حوالے کیا بلکہ رنجیت سنگھ کو پشاور پر قبضہ کرنے میں سہولتکاری کا وعدہ بھی کیا- آخر کار کوہ نور انگریزوں کے ہاتھوں رنجیت سنگھ کے سلطنت کے خاتمے کے ساتھ اپنے موجودہ مقام پر پہنچا جسکا خلاصہ میں شروع میں کر چکا ہوں!

مندرہ بالا تاریخ کے تناظر میں بھارت کی حکومت نے پہلی دفعہ 1976 میں باضابطہ طور پر برطانیہ سے کوہ نور کی واپسی کا مطالبہ کیا اور اسی سال پاکستان کے وزیراعظم زوالفقارعلی بھٹو نے بھی "تاریخی بنیاد” پر یہ مطالبہ پاکستان کیلئے کیا- اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم جم کلنگھن نے دونوں ملکوں کا مطالبہ "قانونی وجوہات” کا جواز بنا کر مسترد کردیا! اس کے بھارت میں طویل عرصے تک اس معاملے پربھارتی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن پر شنوائی ہوتی رہی اور پارلیمنٹ میں اس پرقراردادیں منظور ہوتی رہیں جبکہ پاکستان میں اس سلسلے میں قابل ذکر کیس بیرسٹر جاوید جعفری کا لاہور ہائی کورٹ میں داخل 2016 کا پٹیشن تھا جو انکے مطابق انکی طرف سے برطانوی حکومت کو 700 سے زیادہ خطوط کا کوئی مثبت جواب نا ملنے پر کورٹ نے قابل سماعت قرار دیا تھا-

انہی دنوں میں بھارتی سپریم کورٹ میں اس نوعیت کا کیس اختتامی مراحل میں تھا- پاکستان کیلئے کوہ نور کے دعویداروں کا موقف یہ تھا کہ ہیرے کے آخری قانونی دعویدار احمد شاہی خاندان ہو یا رنجیت سنگھ، چونکہ شاہ شجاع بھی تخت لاہور کا اپنی مرضی سے اتحادی بن گیا تھا اسلئے دونوں صورتوں میں یہ "تخت لاہور” سے معاہدہ لاہور کے جبری سمجھوتے کے تحت ایک غیر ملکی غاصب کمپنی نے زبردستی بٹورا ہے اسلئے اسے واپس لاہور بھیج دیا جاۓ- برطانوی حکومت کا نیا موقف بھی قانونی جواز سے زیادہ متضاد دعووں کی وجہ سےعملی پیچیدگیوں کی بنیاد پر تھا جسکا اظہار برٹش رائل کولکشنز کے ایڈمنسٹریٹر ڈنیل ہنٹ نے خیبرپختونخوا پاکستان کے پرنس طیفور جان کو ان کے احمد شاہ ابدالی کے خاندان کے ایک مستند وارث کی حیثیت سے کوہ نور پر اسکے دعوی کے سرکاری جواب میں 1993 میں کیا تھا-

پاک و ہند کے روایتی متضاد دعووں کے درمیان سب سے دلچسپ اور سیدھا سادہ دعوا افغانستان پر 11/9 سے پہلے حکمران ملا عمر کے طالبان امارت سے آیا! اکتوبر 2000 میں طالبان کے امارت اسلامی کے خارجہ امور کے ترجمان فیض احمد فیض نے کسی قانونی اور تاریخی باریکیوں میں پڑے بغیر براہراست ملکہ الزبتھ سے مطالبہ کیا کہ "کوہ نور افغانستان کا قانونی اثاثہ” ہے جسکو "اور کئی قیمتی چیزوں کی طرح انگریزوں نے نوآبادیاتی دور میں چوری کیا ہے” جو کہ طالبان اب واپس لاکر اپنے ملک کی تعمیر نو میں استعمال کرنا چاہتے ہیں اسلئے کوہ نور کو جلد از جلد واپس کیا جاۓ تاکہ اسکو کابل میوزم میں رکھا جاسکے”- اسکیلئے علاوہ طالبان نے رنجیت سنگھ کو "ایک بڑا غدار” قرار دیا جس نے کوہ نور چوری کیا تھا اسے کسی نے دیا نہیں تھا-

حکومت برطانیہ نے ظاہر ہے طالبان کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوۓ اس مطالبے پر غور کرنے سے انکار کردیا لیکن ساتھ میں ریاست افغانستان کے دعوے کو مکمل مسترد نا کرکے ایک اور ممکنہ دعویدار کے ہونے کی بحث کھول دی- برطانیہ کا ان متضاد اور متعدد دعووں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پالیسی اور ہیرے کی واپسی کے معدوم امکانات کے پیش نظر بھارت میں نریندرا مودی جیسے قوم پرست حکومت نے بھی 2016 میں سپریم کورٹ میں اپنے جواب میں کوہ نور پر برطانوی ملکیت کو اس تاریخی طور پرغلط جواز کے تحت تسلیم کردیا کہ کوہ نور کو رنجیت سنگھ نے خود برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کے حوالے کیا تھا گو کہ اسکا "عوامی” سطح پر بھارت کا موقف اب بھی اسکے برعکس ہے اور تقریبا اسی سے ملتا جلتا مبہم سا موقف پاکستانی حکومت نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں اختیار کیا- اس طرح جائز یا ناجائز کوہ نور اتنے دعویداروں کی موجودگی میں تاج برطانیہ کے پاس رہا اور شائد ہمیشہ رہیگا!

Leave a reply