خیبر پختونخواہ کے نوجوانوں کو درپیش چیلنجز، خطرات اور اُنکا حل .تحریر : ذیشان ہوتی

0
42

پشتون قوم میں تین اقسام کے نوجوان ہیں۔ اور یہ وہ نوجوان ہیں کہ اگر مل کر ایک ساتھ چلیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکتی۔
پہلی قسم کے نوجوان مذہبی طبقے سے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو ہر شہ کو مذہب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ نوجوان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو ان نوجوانوں کے دلوں میں مذہب کے نام پر وطن سے نفرت پیدا کرتے ہیں۔ یہ نوجوان مذہب کے نام پر خودکش دھماکوں کے لئے تیار کیے جاتے ہیں۔

دوسری قسم ان نوجوانوں کی ہے جو قوم پرست ہیں۔ ان نوجوانوں کو بچپن سے قوم پرستی کی بناء پر نفرت سکھا دی گئی ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات رکھ دی گئی ہوتی ہے کہ پشتون قوم کو ہمیشہ سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو ہر سطح پر قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں اور قوم پرستی کی خاطر پاکستان کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔
تیسری قسم ان نوجوانوں کی ہے جو سوشل میڈیا پر فعال ہیں۔ یہ نوجوان ہر اس طبقے کی حمایت کرلیتے ہیں جو طبقہ انہیں اپنی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہوئے انہیں پیسے فراہم کرتا ہو۔ یہ نوجوان پیسے کی لالچ میں ملک کے خلاف نفرت پھیلانے سے بھی نہیں کتراتے ہیں۔

اس وقت پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے اور ملک کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ پہلے اس ملک کے نوجوانوں کو تقسیم کریں اور پھر انہیں اپنی مفادات کے لئے استعمال کریں۔ اس وقت پاکستان میں 64 فیصد نوجوان ہیں۔ جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہے جہاں نوجوانوں کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک نوجوانوں کے اتحاد کے لئے کوئی پروگرام تربیت نہیں دیا گیا جہاں یہ نوجوان آپس میں بیٹھ جائیں، اور اس کی وجوہات اوپر بیان کر دی گئی ہے۔
دوسری طرف غیر ملکی میڈیا نے پاکستان میں صرف خیبرپختونخواہ کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اور ہر واقعے کو بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف پیجز بناتے ہیں اور ایسا مواد شئیر کرتے ہیں جو پاکستان اور نوجوانوں کے لئے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ جبکہ نوجوان طبقہ میڈیا کے اس پراپیگنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کا پہلا ہدف بھی یہی نوجوان ہیں، کیونکہ نوجوان وہ طبقہ ہے جو جلد اثر انداز ہوتا ہے اور ان کو کسی بھی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح بہت سے این جی اوز بھی پاکستان کے خلاف کام کرتے ہوئے نوجوانوں کے لئے مختلف تربیتی پروگرام تشکیل دیتے ہیں اور ان تربیتی پروگراموں میں نوجوانوں کو ایسی مواد فراہم کرتے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ ریاستی اداروں کے لئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہاں نوجوانوں کی ایسی ذھن سازی کی جاتی ہے کہ یہ نوجوان اپنے ہی ریاستی اداروں کے خلاف بولنے لگتے ہیں۔ بیشتر این جی اوز نے پشتون نوجوانوں ہی کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے اور بے روزگار نوجوانوں کو چند روپوں کی لالچ میں ملک کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ان نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں کا نصاب بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ نوجوانوں کی ذہن سازی کرے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال انتہائی ناکارہ ہے ہے۔ جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اول تو طلباء کو دیگر زبانیں سکھائی جاتی ہیں اور جب طلباء میٹرک پاس کرلیتے ہیں تو نہ انہیں علامہ اقبال کے افکار کا پتہ ہوتا ہے اور نہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس ملک کے لئے قربانیوں سے با خبر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ طلباء ان قومی رہنماؤں کے خلاف تک بولنے لگتے ہیں۔

پاک فوج نے اس ملک کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اور بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ لیکن اس وقت نوجوانوں کا ایسا ایک طبقہ موجود ہے جو پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ نوجوانوں کے اس طبقے میں پاکستان کے نوجوان کم جبکہ افغانستان کے نوجوان زیادہ ہیں۔ اس طبقہ نے پاکستان کے نوجوانوں کو تقسیم کر رکھا ہے اور یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں امن قائم ہو۔

بھارت بھی پاکستان کا وہ دشمن ہے جو پاکستان میں امن نہیں چاہتا۔ بھارت بھی ان پشتون نوجوانوں کو اپنی مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے اور مختلف ذرائع سے خاص تنظیموں کو فنڈنگ فراہم کرکے پاکستان اور خصوصاً پاک فوج کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ اگر اس وقت ہم نے اپنے ان مسائل پر غور نہ کیا تو چند ہی سالوں میں اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ جہاں ہمیں اپنے دوست اور دشمن کا پتہ تو لگ جائے گا لیکن تب وقت گزر چکا ہوگا۔

Leave a reply