کے ٹو کے بلند پہاڑ پر منفی 50 ڈگری میں پاک فوج کا ریسکیو سرچ آپریشن

0
32

کے ٹو کے بلند پہاڑ پر منفی 50 ڈگری میں پاک فوج کا ریسکیو سرچ آپریشن

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کے ٹو کے بلند پہاڑ پر منفی 50 ڈگری میں پاک فوج کا ریسکیو سرچ آپریشن شروع ہوگیا ہے

انسانی جسم کے لیے ناقابل برداشت موسم، منفی پچاس ڈگری درجہ حرارت۔ آٹھ ہزار میڑ کی بلندی ۔۔اور نوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی سرد ہوائیں۔اس خطرناک صورت حال میں ۔پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے ۔ دنیا کی خطرناک چوٹی کے ٹو پر ریسکیو و سرچ آپریشن کیا ۔۔

ذرائع کے مطابق عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اوران کے دوغیرملکی ساتھیوں کی تلاش کے لیے زمینی ریسکیو آپریشن پاک فوج کے جوانوں نے شروع کر دیا ہے۔ جوان C4 پہنچ گئے ہیں جہاں لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ ہوا کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہیں — ٹریکر آخری دفعہ اس مقام پر پہنچ کر بند ہوگیا تھا۔

محمد علی سدپارہ ، جے پی موہر اور جان سنوری کے ساتھ بوتل نیک کے نیچے آخری بار دیکھنے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔ تجربہ کار محمد علی سدپارہ کا بیٹا ساجد سدپارہ اس چار رکنی ٹیم کا حصہ تھا جنہوں نے طبیعت ناساز ہونے اور آکسجن کینسٹر کے ریگولیٹر میں کچھ پریشانیوں کی وجہ سے وہاں ہی رکنا مناسب سمجھا ۔ ساجد نے وہاں ہی سب کا تقربیا بیس گھنٹے انتظارکیا اور مقامی وقت کے مطابق شام 5 بجے کیمپ 3 پر پہنچے۔ تب تک ان تینوں کوہ پیماؤں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھاکیونکہ ان کے مواصلاتی آلات کام نہیں کررہے تھے.

ساجد سدپارہ اور چھانگ دعو شیرپا نے پاکستان آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں میں ایک گھنٹے کے لئے تلاشی کے دوران 7،800 میٹر تک لاپتہ کوہ پیماؤں علی سدپارہ ، جان سنوری اور جان پابلو موہر کی تلاش کی لیکن بدقسمتی سے ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ سرچ ٹیم ابروزی اور دیگر راستوں سے گزری۔ بدقسمتی سے C4 کے اوپر موسم کی خرابی کے باعث اس سے آگے نا جاسکی۔ چھانگ شیرپا کے مطابق 6400 میٹر سے اوپر کی ہوا اب بھی 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی جو ہیلی کاپٹر کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی تھی۔

ساجد سدپارہ نے بتایا کہ ان سب کے زندہ رہنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔تین دن تک لاپتہ رہنے اور مناسب گئر کے بغیر انتہائی سرد موسم میں زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ لاشوں کی بازیافت کے لئے آپریشن کیا جاسکتا ہے۔ جب اس وقت پاکستان میں کوہ پیمائی کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی تو اس کا نام سنا جاتا تھا اور اسے ملک میں اس فن کا علمبردار سمجھا جاتا تھا۔ ان کے بیٹے کا انٹرویو بھی اتنا ہی پریشان کن تھا۔ پاکستان میں پہلے ہیرووں کی کمی ہے ، ۔ ان کی موجودگی واقعی ہم میں سے اکثریت کے لیے اہمیت نہیں رکھتی لیکن ان کی عدم موجودگی یقینا ایک نشان چھوڑ رہی ہے۔ صرف امید ہے کہ اللہ ان اور ان کے ساتھیوں کو سلامت رکھے کیونکہ معجزہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ‘کے ٹو’ کو موسم سرما میں سر کر کے نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ نیپالی کوہ پیماؤں کی 10 رکنی ٹیم نے 31 دسمبر 2020ء سے اپنے مہم جوئی کا آغاز کیا تھا اور 16 جنوری 2021ء کو دن کے وقت دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرنے کا اعلان کیا۔

گلگت بلتستان حکومت نے پہلی بار موسم سرما میں ‘کے ٹو’ سر کرنیکا ریکارڈ قائم کرنیکی تصدیق کرتے ہوئے نیپالی حکومت کی کاوشوں کو سرمائی مہم جوئی کے لیے حوصلہ مند قرار دیا ۔

کے ٹو 8611 میٹر کی بلندی کیساتھ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کو ’سیویج ماؤنٹین‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس چوٹی کو پہلی مرتبہ اطالوی کوہ پیما اچیل کمپگنونی نے 1954ء میں سر کیا تھا۔کے ٹو کو سر کرنیکی کوشش میں ابتک 86 کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ آج سے قبل صرف 450 کوہ پیما ہی اس کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان میں سے کوئی بھی کوہ پیما موسم سرما میں یہ چوٹی سر نہیں کر سکا تھا۔

Leave a reply