کب تک؟ — خطیب احمد

0
32

ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب کے دیہاتوں شہروں، گلی محلوں میں موجود چھوٹے بڑے پرائیویٹ سکولز کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہے۔

کسی بھی نوعیت کی معمولی معذوری کے حامل صرف 2 بچوں کو اگر ایک پرائیویٹ سکول داخلہ دے تو اس نئے سال میں 1 لاکھ آوٹ آف سکول سپیشل بچے تعلیمی دھارے میں آسکتے ہیں۔ ایسا ہی اگر پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں ہو تو لاکھوں بچے سکول جا سکتے ہیں۔

محکمہ سپیشل ایجوکیشن پنجاب کے زیر انتظام چلنے والے 300 اداروں میں اس وقت لگ بھگ 35 ہزار سپیشل بچے زیر تعلیم ہیں۔ ہمارے سکول پنجاب کے ہر ضلع، تحصیل، ٹاؤن اور چند بڑے قصبات میں موجود ہیں۔ آپ کسی بچے کے داخلے کے لیے اپنے قریبی سپیشل ایجوکیشن سنٹر کے متعلق مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔

آپ کا کوئی پرائیویٹ سکول ہے تو آپ نیکی کا ارادہ کیجئے۔ سکول کے بچوں سے ہی پوچھیے کہ انکا کوئی بہن بھائی یا گلی محلے میں کوئی سپیشل بچہ ہے تو آپ کو بتائیں۔ میں اس پر آج کل ہی میں ان شاءاللہ تفصیلی مضمون لکھتا ہوں کہ کن بچوں کو آپ آسانی سے انرول کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے بس دل میں خود سے یہ بات آنے کی دیر ہے۔

آپ سپیشل بچوں کے والدین ہیں تو آپ سے میری گزارش ہے۔ بچے کے علاج کے ساتھ اسکا تعلیمی سفر بھی شروع کیجیے۔ اسے ایک وہیل چیئر لے کر دیجئے اور قریبی کسی سکول اسے پڑھنے بھیجئے۔ سکول انتظامیہ کے خدشات ہم انکو گائیڈ کرکے دور کردیں گے ان شاءاللہ۔ وہ یہی اعتراض کرتے کہ وہ بچہ دوسرے بچوں کو تنگ کرے گا اور دیگر بچوں کے والدین کمپلین کریں گے۔

پاکستان میں ہوئی بے شمار تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ نارمل بچوں کے والدین اپنے بچوں کو سپیشل بچوں کے ساتھ ایک کلاس یا سکول میں نہیں پڑھانا چاہتے۔ تو پی ٹی ایم پر والدین کو اچھے طریقے سے گائیڈ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کا محض ایک وہم ہے۔ نہ تو کسی کی معذوری ساتھ پڑھنے سے کسی کو لگ سکتی ہے۔ نہ ہی آپکے بچے کی تعلیم کا ان شاءاللہ کوئی حرج ہوگا۔

کب تک اپنے سپیشل بچے کو چارپائی پر پڑا یا وہیل چیئر پر بیٹھا دیکھ کر روتے رہیں گے؟ کب تک اسے شہر شہر ایک سے دوسرے تیسرے چوتھے ہسپتالوں میں لیجاتے رہیں گے؟ اسے پلیز اب سکول کا رستہ دکھائیے۔ اسے اسکی زندگی اسکے مخصوص مدار میں ہم سے مختلف رہ کر جینے دیجئے۔

چند ایسی معذوریاں ہوتی ہیں جن میں ایک استاد کے ساتھ ایک ہی بچہ پڑھنے پڑھانے یا سیکھنے سکھانے کے کام میں موجود ہوتے ہیں۔ جیسے آٹزم ، ADHD شدید دانشورانہ پسماندگی، یا سماعت و بصارت سے ایک ساتھ محروم ہونا جیسے ہیلن کیلر تھی۔

اس کے علاوہ Rare سنڈروم یا معذوریاں ہوتی ہیں جو لاکھوں کی آبادی میں ایک دو ہی کیس ہوتے۔ یا ایک ساتھ دو یا دو سے زائد معذوریاں ہونا۔ جیسے سی پی کے ساتھ ہی اس بچے میں سماعت کا کم ہونا یا نہ ہونا۔ سی پی کے ساتھ انٹلیکچوئل ڈس ابیلٹی ہونا وغیرہ۔

ان کے علاوہ تقریباً تقریباً تمام ہی اقسام کے سپیشل بچوں کو کسی بھی گلی محلے کے سکول میں بھیجا جا سکتا ہے۔ ہاں اس سکول کے ساتھ قریبی سپیشل ایجوکیشن سکول یا کوئی سپیشل ایجوکیشن کی تعلیمی بیک گراؤنڈ رکھنے والا ٹیچر مسلسل رابطے میں ہو یا معذوری کی نوعیت دیکھتے ہوئے وہاں مستقل ڈپیوٹ کیا جائے۔

اشاروں کی زبان یا بریل سیکھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ چند ماہ میں ہی ایک ٹیچر یہ چیزیں سیکھ جاتا ہے۔ اور سکول میں آکر کتابیں پڑھنا ہی پڑھائی نہیں ہوتی۔ ٹائم مینجمنٹ ، سیلف کئیر ، اخلاقیات، سوشلائزیشن، فرینڈ شپس، گیمز میں حصہ، اسمبلی میں جانا، صفائی ستھرائی سیکھنا، تنہائی کی قید سے باہر نکلنا کیا تعلیم کا حصہ نہیں ہے؟

کیوں کاپی کتاب اور کلاسز پاس کرنے کو ہی تعلیم سمجھ لیا گیا ہوا ہے؟ ایک سپیشل بچہ اپنی ذہنی اور جسمانی استعداد کے مطابق لکھنا پڑھنا سیکھ کر پی ایچ ڈی بھی کر سکتا ہے۔ اور کئی سالوں کی محنت کے بعد صرف لکھنا پڑھنا ہی سیکھ پاتے۔ بنیادی حساب اور خدا رسول یا مذہب کو جان پاتے، یا دیگر کچھ معلومات عامہ انکی یاداشت کا حصہ بن جاتیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ سپیشل بچوں کے والدین کا ایک گروپ تو بچوں کو کسی قابل ہی نہیں سمجھتا کہ یہ کیا کر سکتے ہیں۔۔اور دوسرے ان کو انکی قابلیت سے بہت آگے سمجھ لیتے اور سکول پر سکول بدل رہے ہوتے کہ ہمارے بچے کے ساتھ ٹھیک سے کام ہی نہیں ہورہا۔ تیسرا گروپ ان والدین کا ہوتا جو تھوڑا نہیں ٹھیک ٹھاک پڑھے ہوتے ہیں انکا مطالعہ بڑا وسیع ہوتا اور اپنے بچے کی ڈس ابیلٹی کو ٹھیک سے جان کر قبول کر چکے ہوتے۔ اور بچے کو اپنی کپیسٹی اور مخصوص سپیڈ میں آگے بڑھنے کا موقع دیتے۔

بات کو آسان کرکے کہوں تو تمام سپیشل بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیجنے کا انتظام کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ بچے میں کتنی مثبت تبدیلیاں چند ماہ میں ہی نظر آنا شروع ہونگی۔ اچھا ایک اور غلط فہمی کہ ہمارا سپیشل بچہ سپیشل بچوں کے یا دوسرے بچوں کے سکول جائے گا تو اسے دوسرے بچے ماریں گے یا اسکا برا نام رکھیں گے تو ہم بھیجتے ہی نہیں ہیں۔ یہ بلکل غلط سوچ ہے۔ اس سوچ کو بھی بدلیے اور باقاعدہ فالو اپ رکھئیے۔

Leave a reply