کیا عالمی تنازعات کے حل کے لئے اقوام متحدہ کا کردار اطمینان بخش ہے؟ تحریر: ثاقب معسود

0
27

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی دنیا کا سب سے اہم اور بہت بڑا فورم ہے جس کا اجلاس ہر سال ستمبر میں منعقدہوتا ہے جسے عالمی سطح پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس اجلاس میں دنیا کے تقریبا تمام ممالک شامل ہوتے ہیں اور اس اجلاس میں تمام ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے مسائل کو اجاگر کریں جو ان کے لیے بہت اہم ہیں اور بین الاقوامی برادری کو ان کے بارے میں بات اور غور و غوض کرنا چاہیے۔ اس اجلاس میں بین الاقوامی تنازعات پر بھی کھل کر بات کی جاتی ہے اور حریف ممالک ایک دوسرے کے خلاف ہر طرح کے ثبوت اور شواہد وغیرہ بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنا مضبوط مئوقف دنیا کے سامنے لا سکیں۔ پاکستان ہر سال اس موقع پرمسلم امہ کے علاوہ اہم اور سنجیدہ اورحل طلب مسائل پر بات کرتا ہے تاکہ بین الاقوامی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کراسکے۔ اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنا خطاب کرونا کی تباہ کاریوں سے شروع کیا کہ دنیا کو کووڈ19 کے ساتھ ساتھ کس طرح معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش خطرات جیسے چیلنجز کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ خدا کے فضل سے پاکستان کورونا کی وباء پرقابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور باہمی تعاون کی منصوبہ بندی کی بدولت ہمیں انسانی زندگیوں اور معاش کو چلائے رکھنے میں مدد ملی اور ہماری معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا۔وزیراعظم نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل اسمبلی کو دولت کی غیرقانونی ترسیل کو روکنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی بناناہوگی۔ عمران خان نے باور کرایا کہ اسلامو فوبیاایک ایسی خوفناک شکل اختیارکرچکاہے جس کی روک تھام کیلئے ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔نائن الیون کے بعد سے کچھ امریکی حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا ہے جس کے سبب مغرب میں انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ مسلمانوں کومسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ بھارت کی فاشسٹ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز ہندوتوا کے نظریات نے بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کیخلاف خوف و تشدد کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ این آر سی کے امتیازی قوانین کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ بھارت نے بدقسمتی سے مسلمانوں کے قلع قمع کی سوچ پر مبنی ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جسے وہ جموں و کشمیر مسئلے کا حتمی حل قرار دیتا ہے جبکہ یہ راستہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے عالمی قوتوں کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھاتے ہوئے کہاکہ بھارت نے پانچ اگست 2019 ء سے مسلسل کرفیو اور غیرقانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ اس نے 13 ہزار کشمیریوں کو اغوا کیا ہوا ہے جس میں سے سینکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ سینکڑوں کشمیریوں کو جعلی پولیس مقابلوں میںشہید کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح بھارت نے کشمیریوں کو اجتماعی سزائیں دینے کی روش اختیار کر رکھی ہے جس میں پورے پورے گائوں اور مضافاتی علاقے تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس جبر کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ اسے مسلم اقلیتی علاقے میں بدل دیا جائے۔ اور مقبوضہ جموں کشمیر میں معصوم اورنہتے لوگوں پر پیلٹ گن کا سفاکانہ استعمال، ریپ کوایک جنگی
ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے ،عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے دیگر ہمسایوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن سے رہنے کا خواہش مند ہے لیکن جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا دارومدار جموں و کشمیر کے مسئلہ کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونے میں ہے۔ امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا یواین قراردادوں کے مطابق حل ضروری ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی فاشسٹ حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے وزیراعظم نے اس کیلئے عالمی قیادتوں سے بھارت کو مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے پر مجبور کرنے کا تقاضا کیا ہے۔ نمبرایک بھارت پانچ اگست 2019 کو کئے گئے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات منسوخ کرے نمبر2 کشمیر کے عوام کیخلاف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے نمبر3 مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں کی جانیوالی تبدیلیاں واپس لے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور جنگ کو روکا جائے۔وزیراعظم عمران خان نے موسمیاتی تبدیلیوںاور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق دنیاکی توجہ مبذول کرانے کی بھی کوشش کی۔وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنے طویل خطاب کے دوران یقینا ایک مدبر لیڈر کی حیثیت سے اقوام عالم کو درپیش تمام مسائل کی نشاندہی بھی کی اور انکے ممکنہ حل کے راستے بھی دکھائے۔ بلاشبہ آج الحادی قوتوں کا اسلامو فوبیا سے متعلق پیدا کیا گیا تلخ ماحول بھی علاقائی اور عالمی امن تاراج کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم نے مرض کے اصل روٹ کی بھی نشاندہی کی جو بھارت سے نکل کر دنیا میں پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا موردالزام ٹھہراتے ہوئے انکے قتل عام کی صورت میں مسلم کشی کی نوبت تک پہنچ چکاہے۔ بھارت کا اصل ایجنڈہندوتو اکے ذریعے اکھنڈ بھارت کی صورت میں اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کا ہے جس کے تحت ہندو سماج برصغیر میں مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے چنانچہ انتہا پسند ہندو حکمرانوں نے سیکولر بھارت کو ہندو انتہا پسند ریاست میں تبدیل کرکے پورے خطے میں ہندو جنونیت کی آگ بھڑکا دی ہے جو بالآخر پوری دنیا کی تباہی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر پر قیام پاکستان کے وقت سے ہی بھارت کا غیرقانونی تسلط جمانا اسکے مسلم دشمن توسیع پسندانہ عزائم ہی کا تسلسل تھا چنانچہ وہ اپنے ہی پیدا کردہ اس مسئلہ کے حل کیلئے یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی پائوں تلے روندتا رہا اور عالمی قیادتوں و عالمی اداروں کے ہر دبائو اور ثالثی کی پیشکشوں کو بھی رعونت کے ساتھ ٹھکراتا رہا جبکہ اس نے پاکستان بھارت دوطرفہ مذاکرات کے حوالے سے 1972 میں طے پانے والے شملہ معاہدہ کو بھی دوطرفہ مذاکرات کی ہر میزپررعونت کے ساتھ الٹا کر غیرموثر اور ناکام بنایا اور کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرکے بھارتی تسلط قبول نہ کرنے والے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کی نئی مثالیں قائم کردیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے تو مسلم دشمنی کی ساری حدیں عبور کرلی ہیں اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی بنیاد پر مسلمانوں کے علاوہ بھارت کی دوسری اقلیتوں بشمول سکھوں کی زندگیاں بھی اجیرن بنا دی ہیں۔ مقبوضہ وادی بشمول لداخ کو جبراََ بھارت میں ضم کرنے کیلئے مودی سرکار نے دو سال قبل پانچ اگست کو جو یکطرفہ اقدامات اٹھائے جن کے بعد اس نے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کرکے ان پر باہر کی دنیا کے تمام دروازے بند کر رکھے ہیں وہ دنیا بھر میں ظلم و جبر کی نئی مثال ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے کورونا کی آڑ میں بھی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے راستے نکالے اور انہیں کورونا کے پھیلائو کا موردِالزام ٹھہرایا جس
پر مودی سرکار کیخلاف دنیا بھر میں نفرت و حقارت کی لہر اٹھی ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل اسمبلی میں خطاب کیلئے واشنگٹن آنیوالے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو وہاں کشمیریوں اور سکھوں کے سخت احتجاج کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑا امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی خود انکے استقبال سے گریز کیا جبکہ انکے خطاب کے موقع پر حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیریوں نے مقبوضہ وادی اور بھارت میں مکمل ہڑتال کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہندوتوا کا ایجنڈا رکھنے والے جنونی بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی اور عالمی قوتوںسے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک نئی جنگ روکنے کے اقدامات اٹھانے کا تقاضا کیا جن میں اصل قدم مسئلہ کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیلئے اٹھانا مقصود ہے۔ بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جس کی جانب وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شریک عالمی قیادتوں کو متوجہ کیا ہے۔ اس تناظر میں جنرل اسمبلی کا موجودہ اجلاس روایتی اجلاسوں کی طرح محض نشستند گفتند خوردن و برخاستند پر ہی منتج نہیں ہونا چاہیے بلکہ اجلاس میں اقوام عالم کو درپیش تمام مسائل بالخصوص اسلامو فوبیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرناہوگا۔ورنہ ایسی اقوام متحدہ کی کوئی ضرورت نہیں عیسائیوں کیلئے مشرقی تیموراورجنوبی سوڈان میں توفوری حرکت میں آجاتی ہے مگرمسلمانوں کے دیرینہ مسائل ،کشمیر،فلسطین اورسائپرس (قبرص)پچھلے سترسالوں سے حل طلب ہیں ،مسلمان ممالک عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ یواین اوصرف غیرمسلم کے مفادکے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے جبکہ مسلم امہ کے مسائل سے ہمیشہ طوطاچشمی اختیارکئے رکھی ہے۔اب بھی اگریواین اومسلمان ممالک کے دیرینہ حل طلب مسائل پرآنکھیں بندرکھتی ہے توپھرایسی اقوام متحدہ کی مسلمانوں کوکوئی ضرورت نہیں ہے اورمسلمان ملکوں مغربی استعمارکے تابع یواین اوکوخیربادکہہ دیناچاہئے۔

@isaqibmasood

Leave a reply