کیا ہم انسان ہیں؟ تحریر: ظفر ڈار

0
23

@ZafarDar 

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم کسی ظلم اور جبر کی داستان نہ سنیں۔ کہیں قتل وغارت تو کہیں لوٹ مار، کہیں عزتوں کے سودے اور کہیں خواہشات کی غلامی میں معصوم بچوں اور بچیوں کی آبروریزی۔ کسی بھی حساس انسان کیلئے خود کو ایسی خبروں سے بے نیاز رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور لامحالہ ہماری سوچ ہمیں اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم انسان بھی ہیں یا محض لباس انسان میں ہیں؟

اللہ تعالٰی نے ہمیں انسان بنا کر اشرف المخلوقات قرار دیا، حتیٰ کہ اپنے عبادت گزار فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ فرشتوں کو حکم ربی بجا لانے کا ہی اختیار ہے، انکار کا نہیں۔ جس نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی وہ اگرچہ گروہ جنات سے تھا لیکن اپنے علم کی وجہ سے فرشتوں کا سردار تھا، ابلیس سے شیطان بن کر ہمیشہ کیلئے معتوب ہو گیا۔ یوں اللہ تعالٰی نے انسان کی فضیلت اپنی تمام مخلوقات پر قائم کر دی۔ اللہ کی ہزاروں مخلوقات میں سے اس دنیا میں ہمارا واسطہ حیوانات و نباتات سے رہتا ہے اور کبھی کبھار جنات سے لیکن وہ ایک غیر مرئی تعلق ہے۔

انسان اور حیوان اس دنیا میں تقریباً ایک جیسے انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی پیدائش و افزائش نسل، سونا، جاگنا، کھنا پینا، ہضم کرنا اور دیگر معاملات انسانوں کی طرح ہی ہیں۔ اسی لئے میڈیکل کے طالبعلموں کو جانوروں کے نظام پر پہلے تجربات کرائے جاتے ہیں اور کسی بھی نئی دوا کو متعارف کرنے سے پہلے اس کی افادیت اور مضر اثرات جاننے کیلئے جانوروں پر ہی تجربات کئے جاتے ہیں۔ تمام خصوصیات میں مماثلت کے باوجود ایک فرق جو انسان اور جانور میں تفریق کرتا ہے وہ شعور ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، اچھے برے کی تمیز، اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔ اللہ نے انسان کو بے شمار معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے جو اپنی مرضی اور سوجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ گویا انسان جب اپنے علم، شعور اور دماغی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرے تو وہ انسان کے درجے سے نکل کر حیوان کے درجے میں شامل ہو جاتا ہے۔

انسانیت کو معراج اس وقت عطا ہوئی جب اللہ نے انسانیت پر احسان فرمایا اور اپنے محبوب ﷺ کو خاتم الانبیا بنا کر مبعوث فرمایا۔ گویا مسلمان ہونا اور حضور اکرم ﷺ کا امتی ہونا ہمیں انسانیت کے اعلٰی ترین مرتبے پہ فائز کرتا ہے۔ اگرچہ ایک مسلم معاشرے کا رکن ہونے کے ناطے میرا فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں اور میرا دین وہ مکمل دین ہے جس کے بعد کسی مزید ترمیم اور اصلاح کی ضرورت اور گنجائش نہیں اور جو قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ اس طرح دین فطرت اور سرکار ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے ہم سب مسلمانوں کا طرز عمل دیگر انسانوں (اور مذاہب کے ماننے والوں) سے بہت اعلٰی معیار کا ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن مجید اور محسن انسانیت ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہماری راہنمائی کیلئے موجود ہے۔

لیکن جب ہم عملی طور پر موجودہ معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اکثر غیر مسلم، انسانیت کا بہتر نمونہ نظر آتے ہیں۔ جو احکام اسلام نے ہمیں دئے، ہم نے انہیں بھلا دیا اور غیر مسلموں نے ان احکام کو اپنی زندگیوں اور معاشروں میں رائج کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اخلاقی طور پر ہم سے بہتر نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہم عمل سے خالی ہونے کے باوجود خود فریبی کا شکار ہیں۔ اگرچہ ہم حقوق اللہ کی طرف مائل ضرور ہیں لیکن حقوق العباد سے بہت دور ہیں جبکہ دین ہمیں معاشرت سکھاتا ہے۔ "تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے  مسلمان محفوظ رہیں” یہ کس طرف اشارہ ہے؟

ابھی تک کی گفتگو میں یہ معاملہ زیر غور لانا چاہ رہا ہوں کہ معاشرتی رویوں اور اپنے عمل سے ہم نے خود کو انسانی درجے سے بھی نیچے حیوان کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔ جو یہ نہیں سوچتا کہ میں کسی کے ساتھ ظلم کیوں کر رہا ہوں؟ کیا مجھے اللہ کے سامنے حاضر نہیں ہونا جہاں مجھ سے سوال کیا جائے گا؟ میں کسی کی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ زیادتی کر رہا ہوں تو کوئی میری بہن بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ہمیں حیوان کی سطح سے انسان اور پھر مسلمان کی سطح پر واپس آنا ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر معاشرہ دے سکیں۔ خود کو تبدیل کئے بغیر ہم ریاست مدینہ کے خواب کی تعبیر نہیں حاصل کر سکتے۔

یاد رکھیں قومیں ترقی اسی صورت میں کرتی ہیں جب وہ اچھے معاشرے کی بنیاد رکھتی ہیں۔ آج یورپ اور امریکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہیں تو دو سو سال پہلے یہ صورتحال نہیں تھی۔ اور آج ہم مسلمان تباہی اور اخلاقی پستی کا شکار ہیں تو چند سو سال پہلے تک ہم ایک تہائی دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں۔

تحریر: ظفر ڈار

@ZafarDar 

Leave a reply