کیا جنگ واقعی مسائل کا حل نہیں ؟

0
27

ہاں وہی کشمیر جس کے حسین نظارے گولہ بارود کی نظر ہوگے ، ہاں وہی کشمیر جہاں کی بیٹیاں درندوں نے نوچ ڈالیں ، ہاں وہی کشمیر جہاں کے بچوں اور جوانوں کو بے دردی سے ذبح کیا جارہا ہے ، ہاں وہی کشمیر جہاں کی بیٹیاں اسلحہ سے لیس فوج کا مقابلہ پتھروں کے ساتھ کر رہی ہیں ۔شاید وہ پتھر دشمن فوج کو نہیں بلکہ مسلمان حکمرانوں کے منہ پر پڑنے چاہیے تاکہ ان حکمرانوں کو پتہ ہو کہ تمام مساٸل کا حل جہاد ہی میں ہے ۔ کاش ہم آزاد مسلمانوں نے یہی پتھر بر وقت مسلمان حکمرانوں کو مارے ہوتے تو آج امت کی بیٹیاں اس قدر مجبور اور بے بس نہ ہوتیں ۔ اگر ہم تمام مسلمانوں نے حکمران منتخب کرتے ہوٸے یہ دیکھا ہوتا کہ کہ حکمران اچھی تقریر کرنے کی بجاٸے کتنا غیرت مند ہے تو آج امت کی بیٹیاں اس قدر مجبور اور لاچار نہ ہوتیں ۔ آج مسلمان حکمران انہی بیٹیوں کی عزت کو تار تار کرنے والے قصاٸی کو اپنے اعلی سول اعزاز سے نواز انہیں مزید ہمت دے رہے ہیں کہ شاباش لوٹتے رہو ہماری بیٹیوں کی عزتیں ۔ آج ہمارے حکمران کشمیری بچوں اور جوانوں کو ذبح کرنے والے قصاٸی کو اپنی فضاٸی حدود دے کر یہ بتا رہے ہیں کہ شاباش کرتے رہو کشمیریوں کو ذبح ۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ، پاکستانی وزیر اعظم کشمیریوں کے سفیر ہیں ۔ کیا پاکستان نے انڈیا کے لیے اپنی فضاٸی حدود بند کیں ؟ کیا پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تجارت بند کی ؟ کیا پاکستان نے انڈیا کو نمک دینا بند کر دیا ؟ کیا پاکستان نے انڈیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ؟

ہمارے سیاسی دانشور کہتے ہیں کہ جنگ مسٸلے کا حل نہیں ۔ میں ان سب بزدلوں کو کہنا چاہوں گا کہ بزدلوں جہاد کو جنگ کا نام مت دو ۔ جہاد میں خیر ہی خیر ہے ، مر گے تو بھی کامیاب اور زندہ رہے تو بھی کامیاب ۔ لنڈے کے دانشور کہتے ہیں اگر ہم نے جنگ کی تو ایٹمی جنگ چھڑ جاٸے گی ۔ میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ کہ کشمیر میں جس لڑکی کی عزت اس کے باپ اور بھاٸی کے سامنے تار تار کر دی جاٸے ، جو بچہ اپنی ماں کے سامنے ذبح ہوجاٸے ، جب ایک ایک گھر سے پانچ پانچ جنازے ایک ہی دن میں ایک ہی وقت میں اٹھتے ہوں جب کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ان کے پیاروں کے سامنے نوچہ جاتا ہو کیا وہاں وہاں ایٹم کی تباہی ذیادہ خطرناک ہے یا پھر جہاد نہ کرنے کا نقصان ذیادہ ؟

چند دانشور فرماتے ہیں کہ ہمارے اتنے وساٸل نہیں کہ ہم جنگ کر سکیں ۔ میں امت مسلمہ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا ہمارے اتنے بھی وساٸل نہیں جتنے غزوہ بدر میں 313 کے پاس تھے ؟ کیا ہمارے اتنے بھی وساٸل نہیں جتنے غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے پاس تھے ؟ یہ دانشور کہتے ہیں کہ کوٸی پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ میں ان جعلی دانشوروں سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا جب تمام قباٸل مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوٸے تھے تب مسلمانوں نے سوچا تھا کہ ہم اکیلے کھڑے ہیں سارا کفر تو ایک طرف ہے ؟ مسلمان حکمرانوں یاد رکھو بات وساٸل کی نہیں بات غیرت کی ہے ۔ امت مسلمہ کی حفاظت ، اپنی شہہ رگ کی حفاظت ، مظلوم و بے بس بیٹیوں کی حفاظت کے لیے وساٸل کی نہیں غیرت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انسان غیرت مند ہو وساٸل نا بھی ہوں تو 313 کی طرح کفر سے ٹکرا جاتا ہے پھر سارا کفر بھی مقابلے میں اتحاد کر کے آجاٸے تو اللہ مقابلے کے بغیر ہی آندھیوں اور طوفان کو بھیج دیتا ہے تاکہ کفر کا نام و نشان مٹ سکے ۔ اگر مسلمان غیرت مند ہو وساٸل نا بھی ہوں تو مسلمان جب اپنی بیٹیوں کی عزتیں بچانے نکلے تو اللہ بھی فرشتوں کو مدد کےلیے بھیج دیتا ہے ۔ جنگ کے لیے وساٸل کی نہیں جذبے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جذبہ جو معاذ اور معوذ میں تھا ، وہ جذبہ جس کے تحت حکم دینا پڑتا ہے کہ کشتیاں جلادو ، کشتیاں جلا دو ۔ جنگ کے لیے وساٸل نہیں جذبہ چاہیے وہ جذبہ جس سے دریا بھی گزرنے کے لیے رستہ دے دیا کرتے ہیں ، وہ جذبہ جس میں ایک نو عمر نوجوان عرب سے آتا ہے اور فاتح سندھ بنتا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خاں صاحب آپ نے خود کو کشمیر کاسفیر بنانے کا اعلان کیا ہے حالانکہ آپ کو سفیر کشمیر نہیں بلکہ سپہ سالار کشمیر اور فاتح کشمیر بننا چاہیے تھا ۔ عمران خاں صاحب تھوڑی ہمت کا مظاہرہ اور کریں اور انڈیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں اور انہیں صرف دو دن کا وقت دیں کشمیر سے نکلنے کا ، پھر دو دن بعد نعرہ تکبیر بلند کر کہ جہاد کا علان کر دیں فوج اور عوام آپ کے ساتھ ہے ۔ آپ کے لیے یہ سنہرا موقع ہے کہ آپ سفیر کشمیر بننے کی بجاٸے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی بنیں اور دنیا کو دیکھا دیں کہ پاکستانی ایک غیرت مند قوم ہیں جنہوں نے کشمیریوں سے وفا نبھاٸی ۔ خان صاحب آپ تھوڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں پھر دیکھ خان صاحب آپ تھوڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں پھر دیکھیں فتح ہماری ہی ہوگی وہ بھی جنگ کیے بغیر کیونکہ جب آپ اعلان جہاد کریں گے تو دنیا خود اس مسٸلے کو حل کرے گی کہ کہیں واقعی ایٹمی جنگ نا چھڑ جاٸے کیونکہ اگر ایٹمی جنگ چھڑی تو پھر اسلام کا وجود تو باقی رہے گا لیکن ہندو مذہب کا نام و نشان مٹ جاٸے گا ۔ اگر آپ وزیر اعظم پاکستان ہوتے ہوٸے بھی بے بسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو پھر یاد رکھیں کہ نا تو تاریخ کبھی آپ کو معاف کرے گی اور آپ تاریخ میں بزدل ترین حکمران سمجھے جاٸیں گے ۔ دنیا کی طاقتور ترین فوج ، طاقت ور خفیہ ایجنسی ، جدید ترین اسلحہ ، جنگی و بحری جہاز رکھتے ہوٸے بھی ہم نے اپنی شہہ رگ کو کھو دیا تو یاد رکھنا ہم دنیا کی بے غیرت ترین قوم کہلاٸیں گے جن کے ساتھ کشمیری وفا میں اس حد تک گزر گے کہ وہ شہادت بھی ہمارےپرچم کو سینے سے لگا کر قبول کرتے ہیں اور دفن بھی ہمارے جھنڈے سے لپٹ کر ہوتے ہیں ۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خاں صاحب کیا آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر ، دنیا کے حکمرانوں کا ڈراٸیور بننے والے ، مال غنیمت کو لوٹ مار اور صحابہ کو بزدل کہنے والے سے انسان سے ہم یہ توقع رکھیں کہ کہ وہ غیرت و ہمت کا مظاہرہ کرے گا یا پھر ہم پاکستانی یہ سوچ لیں کہ کوٸی مدرسے سے فارغ التحصیل انسان ہی مسلمان بیٹیوں ، بچوں ، بزرگوں اور جوانوں کی مدد کر سکتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خاں صاحب کیا کشمیری بھی یہ سوچ لیں کہ ہم نے ایک ایک بزدل ، ڈرپوک ، خود غرض اور بے حس قوم سے وفا نبھاٸی ہے جس کی پاکستان قدر نا کر سکا ۔

اللہ پاک مسلمان حکمرانوں اور عوام کو ملی غیرت عطا فرماٸے اور مظلوم و بے بس مسلمانوں کی غیبی مدد فرماٸے ۔ آمین

Leave a reply