لہجے میں سچائی کی مہک اور اصلاح تحریر: علی حمزہٰ 

0
35

سچ کا مقصد اپنی خود نمائی، خود کو صادق اور امین ظاہر کرنے سے زیادہ کسی کی اصلاح ہے تو مناسب الفاظ نرم لب و لہجہ ہونا ضروری ہے۔ سامنے والے کو بھی آپ کی اصلاح سے تکلیف نہ ہو اور وہ سچ کا قائل بھی ہو جائے۔ اور غیر محسوس طریقے سے سامنے والا اپنی اصلاح بھی کر لے۔ "مقصد دستک دینا ہوتا ہے دروازہ توڑنا نہیں”

سچ بولنے کی عادت بچوں کو بچپن سے ہی سکھائی جاتی ہے اور سکھائی بھی جانی چاہیے۔ بچوں کو چھوٹے ہوتے سے ہی جھوٹ بولنے پر سزا دینی چاہیے لیکن ہم لوگوں کا علمیہ یہ ہے کہ ہم بچوں کو بچپن سے ہی جھوٹے کسے کہانیاں سنا سنا کر انہیں جھوٹ بولنے اور سننے کی عادت ڈال رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ سچ تو یہی ہے کہ سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ہلاک کر دیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں چاہیے کہ ہم بولیں تو ہمارے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سچائی کی گواہی دے رہا ہو۔

دنیا میں واحد ہستی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی کی ہے جنہوں نے 63 برس عمر مبارک پائی اور زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک سے نکلنے والا ایک ایک لفظ سچ تھا اور سچائی کی گواہی دیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ کے لہجے میں سچائی کی مہک پائی جاتی تھی۔ میں یہاں ایک واقعہ مختصر بیان کرتا چلوں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی سب سے پہلے معراج کا واقع حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سنایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واقع سنتے ہی یہی فرمایا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا۔

سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت پر زور ہر ایک مزہب نے دیا ہے اور اس اہمیت کو یکساں طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہے شریعت اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے اور اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اس لیے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہ ماننے والوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور ایمان داری کی گواہی دی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور ایمانداری سے متاثر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے القاب سے نوازا تھا۔ آپ ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور ابولہب جیسے بھی آپ ﷺ کی سچائی کو تسلیم کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تمام انبیاء کرام علیہ السلام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو متعدد مرتبہ سچ بولنے کی تعلیم دی ہے:

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔” (التوبۃ: ۱۱۹)

اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:

”آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔” (المائدۃ: ۱۱۹)

چونکہ جھوٹ کے نتائج بہت مہلک اور خطرناک ہو سکتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے بہت سخت وعیدیں سنائی ہیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

”سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچے رہو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔” (بخاری ومسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

”جو تاجر سچا اور امانت دار ہو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔”

لہذا ہمیں اپنے کاروبار میں بھی ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ پیارے حبیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بول کر مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

جس طرح دنیا میں رہنے کے لئے پانی ضروری ہے اس طرح دنیاوی معاملات میں سچائی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس طرح پانی کی بغیر زندگی ممکن نہیں اسی طرح سچ کے بغیر نظام عالم کا کاروبار بھی ممکن نہیں۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Twitter Handle: @AliHamz21

Leave a reply