"لاہور”پاکستان کا”دل”لاہور کا دل "ماڈل ٹاون”1921سے لیکر2021 تک:100 سالہ تاریخ کےحامل "قصبے”کادلچسپ سفر

0
38

 

 

 

ایک محاورہ اب ایک تاریخی حقیقت اختیار کرگیا ہے کہ "لاہور پاکستان کا دل” ہے

اگر”لاہورپاکستان کا دل” ہے تو لاہور کا دل ہونے کا اعزازکس کو ہے ؟

اس کا فیصلہ لاہور والے ہی کرسکتے ہیں اور لاہور والوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ لاہور کا دل ہونے کا اعزاز”ماڈل ٹاون ” کوحاصل ہے

 

جس "ماڈل ٹاون کی بیناد 1921 میں رکھی گئی 2021 میں یہ ماڈل ٹاون سوسال کا ہوگیا ہے ، یوں "ماڈل ٹاون ” کی سوسالہ تاریخ کا یہ ایک سنہری باب ہے

 

 

 

اس کی وجہ تسمیہ؟

ماہرین اورمفکرین کا خیال ہے کہ تاریخ کے روشن اوراق کوپلٹیں‌ تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس ماڈل ٹاون کی بنیاد قیام پاکستان سے 26 سال قبل رکھی گئی ، اس سوسائٹی میں نہ صرف لاہور کے بلکہ اس وقت کے برصغیر اور ایسے ہی تاج برطانیہ کی بڑی بڑی پڑھی لکھی شخصیات ، جن میں‌ تعلیمی ماہرین ، پررفیسرز،اساتذہ، ڈاکٹرز،طبیب ، جج،انجینیئرز اور بڑے بڑے ذی شعور شخصیات نے اس ماڈل ٹاون کواپنا مسکن بنایا اورپھرایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس نے آگے چل کر تعلیمی ماہرین ، پررفیسرز،اساتذہ، ڈاکٹرز،طبیب ، جج،انجینیئرز اور ماہرین ہی قوم کو دیئے ، انہیں اقدار ، تابندہ کرداروں کی وجہ سے ماہرین کہتے ہیں کہ ماڈل ٹاون لاہور کا دل ہے

 

 

 

اب سوال باقی ہے کہ ماڈل ٹاون والوں کی دلوں کی دھڑکن کون ہے ؟ اس کا جواب میں‌آخر میں حقائق کو بیان کرنے کے بعد ہی دوں گا کہ ماڈل ٹاون والے کسے دل دے بیٹھے ہیں اوران کے دلوں پرکون راج کرتا ہے؟

 

 

اب آتے ہیں‌ کہ یہ ماڈل ٹاون کیا ہے ؟

ماڈل ٹاون (Model Town) لاہور، پنجاب پاکستان کے رہائشی مضافات میں سے ایک ہے۔ یہ فیصل ٹاؤن، گلبرگ، گارڈن ٹاؤن اور ٹاؤن شپ کے درمیان میں واقع ہے۔

ماڈل ٹاؤن 1921ء میں قائم ہوا جو دیوان کھیم چند کے ایک "گارڈن ٹاؤن” کے قیام کے خواب کے نتیجے میں سامنے آیا۔ اتوار، 27 فروری 1921ء کو رائے بہادر گنگا رام کی زیر صدارت لاہور کے ٹاؤن ہال میں تقریبا 200 افراد جمع ہوئے اور ایک کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

 

 

1927 میں کرنل جمال الدین کو لاہور میں سول سرجن کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا۔ مسٹر کرپلانی ڈپٹی کمشنر اور سردار تیجا سنگھ سیشن جج تھے۔ تینوں ہندوستانیوں کو پہلی بار ایک ساتھ پوسٹ کیا گیا تھا۔ ایک فرانسیسی معمار کی مدد سے جو ان کے باہمی دوست تھے ،

انہوں نے بطور ریٹائرمنٹ رہتے ہوئے ماڈل ٹاؤن کی برادری کا منصوبہ بنایا۔ ابتدائی طور پر ، ماڈل ٹاؤن کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں ایک مسجد ، ایک مندر اور گردوارہ ایک مرکز کے طور پر عبادت کی جاسکتی تھی ، جس کے چاروں طرف مکانات کے تین بلاک تھے۔ ترقی کے مرکز میں زمین تفریح اور معاشرتی خدمت مراکز کے لئے خالی رہ گئی تھی۔

 

 

 

اجلاس میں لاہور کے مضافات میں تعاون کے اصولوں پر مبنی دیوان کھیم چند کی مجوزہ ہاؤسنگ سکیم کی منظوری دے دی گئی، جس کی اصل بنیاد رہائشی مسائل کو حل کرنا اور رہائشیوں کے لیے بہتر نکاسی آب اور بہتر سہولیات رہائش فراہم کرنا تھا۔ چنانچہ حکومت کو 2000 ایکڑ (4 مربع کلومیٹر) زمین کا قطعہ فراہم کرنے کی درخواست دی گئی۔

اجلاس میں دیوان کھیم چند کی تجویز کردہ ہاؤسنگ اسکیم کو لاہور کے نواحی علاقوں میں کوآپریٹو اصولوں پر مبنی رہائشی مسائل کے حل اور رہائشیوں کے لئے بہتر سینیٹری اور بہتر رہائش کی سہولیات کی فراہمی کی منظوری دی گئی

ایک سوسائٹی اصل میں "گارڈن ٹاؤن” کے تصور کے طور پر رکھی گئی تھی جس میں "زرعی فارم” ، "سبزیوں کا باغ” اور "پھلوں کا باغ” تھا ، جو دیوان کھیم چند کا خواب تھا۔

تقسیم کے وقت ، سوسائٹی کے ممبروں کی کل تعداد 1366 تھی ، جن میں سے 277 مسلمان اور عیسائی تھے اور 1089 ہندو ، سکھ تھے۔

اس سوسائٹی کو 1947 میں ہند پاک کی تقسیم کے بعد ایوکیئ پراپرٹی قرار دے دیا گیا تھا ، کیونکہ 85 فیصد پلاٹ غیر مسلموں کے تھے جہاں 1300 ارکان میں سے 1100 ہندوستان ہجرت کرگئے تھے

1960 میں چیف آبادکاری اور بحالی کمشنر نے اسے قانونی وجود کی حیثیت سے اجازت دی اور 100 روپے کی ادائیگی پر کوآپریٹو ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے طور پر اندراج کرنے کی اجازت دی گئی۔ جس کے بعد پرانی سوسائٹی کے تمام اثاثے اور واجبات بشمول ان پراپرٹی بشمول ایواکی کو موجودہ سوسائٹی میں منتقل کردیا گیا۔ کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ 1925 کے تحت سوسائٹی رجسٹرڈ تھی۔

سوسائٹی کا بنیادی مقصد ، تاہم پہلے سے ہی منصوبہ بندی کے مطابق ہی رہتا تھا ، یعنی اس کے ممبروں کے معاشی اور معاشرتی مفادات کو فروغ دینا اور زیادہ سے زیادہ باغیچے قائم کرنے ، قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے

ماڈل ٹاؤن کے کشادہ مکانوں کی ملکیت ریٹائرڈ جج، امیر کاورباریوں، تاجروں اور بڑی دکانوں کے مالکان کی تھی۔ بہت سے ہائی کورٹ کے جج، ڈاکٹر اور انجینئر بھی شہر سے ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گئی

 

 

محل وقوع
ماڈل ٹاؤن کے مشرق میں کینٹ، مغرب میں فیصل ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن، شمال میں گارڈن ٹاؤن اور جنوب میں ٹاؤن شپ اور کوٹ لکھپت واقع ہیں۔

انتظامی ترتیب
ماڈل ٹاؤن کو انتظامی طور پر متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے نام انگریزی حروف تہجی پر بلاک اے، بلاک بی اور بلاک سی کی طرز پر ہیں۔

ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن
بلاک ایل سے اگلے بلاکس کو ماڈل ٹاؤن (توسیع) یعنی ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن کا نام دیا جاتا ہے، جو ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے زیر انتظام نہیں ہیں۔

 

 

 

اسی ماڈل ٹاون کوترقی دینے کے دعوے توہرکوئی کرتا رہا لیکن اگراس کوکسی نے عملی جامہ پہنایا ہے تو وہ ماڈل ٹاون والوں نے ہی پہنایا ہے، ویسے تو بڑے بڑے گروپ میدان میں آئے مگر کسی گھر کواس کے رہنے والے بہتراورخوبصورت بنا سکتے ہیں اورکوئی نہیں‌

پھر ہوا بھی یہی ماڈل ٹاون کے رہنے والوں نے ماڈل ٹاون کے نام سے ایک متحرک اوراہل ٹیم تیارکی جسے اس کی ترقی کے لیے اپنی تمام ترجدوجہد کوبروئے کارلانے کےلیے ذمہ داریاں‌ سونپی گئیں

پھر بعد ازاں اسے ماڈل ٹاون کے رہنے والوں‌ کی خواہش پراس چند ہونہارلوگوں کی ٹیم کے گروپ کا ماڈل ٹاون گروپ کا نام دیا گیا ، پھراس گروپ نے جس طرح لاہور کے اس علاقے کے رہنےوالوں کےلیے جدوجہد کی اس کی مثال نہ پہلے ملتی ہے اورنہ ابھی تک کوئی ایسا کردکھایا جوانہوں نے کیا

 

اسی ماڈل ٹاون گروپ کو صاحبزادہ سیف الرحمن کی صورت میں ایک بہت ذمہ داراورمحنتی شخص مل گیا ، یہ 2012 کی بات ہے جب مارچ 2012 میں ماڈل ٹاون سوسائٹی نے صاحب زادہ سیف الرحمن کو صدر بنا دیا

 

 

 

 

 

 

یہ اس دورکی بات ہے جب ماڈل ٹاون سوسائٹی کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی ان دنوں کی بات ہے کہ حکومت پنجاب نے بھی پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی بند کردی تھی جوابھی تک بند ہے اورایسے ہی ریونیو بورڈ نے کے ذمہ بھی کروڑوں روپے واجب الادا ہیں‌

 

 

ماڈل ٹاون کے رہنے والوں کے لیے ان کے بچوں کی شادی کے مسائل بھی اگر کسی نے حل کیئے ہیں تو ان کا نام صاحبزادہ سیف الرحمن ہے جنہوں‌نے شادی ہال بنوائے اورپھراس مقصد کے لیے خطیر رقم بھی خرچ کی تاکہ لوگوں کوپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے

 

 

بارات گھر میں نصب کرنے کے لئے سوسائٹی نے ہائر کمپنی سے اے سی پلانٹس خریدے ہائیر کمپنی کو تین کروڑ روپے سوسائٹی نے ادا کرنے تھے سوسائٹی نے ہائرکمپنی والوں سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کمپنی سوسائٹی سے یہ رقم آسان اقساط میں وصول کرے بارات گھر میں شادی فنکشن کا انعقاد کیا جس سے سوسائٹی کی آمدن شروع ہوئی اور ممبر کی اپنی بیٹی بیٹے پوتی پوتے کی شادی پر چارج سے مستثنیٰ قرار دیا-

 

 

 

ماڈل ٹاون بلا شبہ ایک بہت بڑی سوسائٹی ہے جس میں صاف پانی کی فراہمی اورسیوریج سسٹم کوبہتربنانا انتہائی ضروری تھا ، اس مقصد کے لیے ماڈل ٹاون میں نئے ٹیوب ویل لگوائے اورپرانے ٹیوب ویلوں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے سوسائٹی نے وسائل بھی فراہم کیئے اورلاہور کےاس علاقے کے رہنے والوں کے اس دیرینہ مسئلے کو بھی حل کردکھایا

ایسے ہی سیوریج کےپانی کے نکاس کا معاملہ تھا اسے بھی حل کیا اورجہاں کہیں نئے سرے سے تعمیر کی ضرورت تھی وہ کروائی اورجہاں مرمت اوربحالی کا معاملہ تھا وہ حل کروایا اورآج ماڈل ٹاون میں سڑکوں میں پانی نظرنہیں آئے گا

صاحبزادہ سیفر الرحمن کی قیادت اوررہنمائی میں پانی کے نئے حوض تعمیر کئے گئے اورپھرایسا مربوط سیوریج سسٹم تیارکیا گیا کہ کہیں بھی گندہ پانی نظرنہیں آئے گا اورنہ ہی کسی کونکاسی آب کی شکایت ہے

 

 

ماڈل ٹاون بلا شبہ ایک بہت بڑی سوسائٹی ہے اوریہاں پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھرسے بھی لوگ آتے رہتے ہیں اسی کلچر کی وجہ سے ماڈل ٹاون میں نوجوانوں میں‌شیشہ پینے کی عادت پڑگئی اوردیکھتے ہی دیکھتے 16 شیشہ کیفے بن گئے ، اپنے بچوں‌کواس نشے سے بچانے کے لیے شیشہ کیفے ختم کروائے

 

 

 

ویسے تو ضروریات زندگی کے لیے ہرکسی کی اپنی اپنی ضرورت ہے اوراسی مقصد کے لیے ماڈل ٹاون میں‌ دیکھتے ہی دیکھتے پھلوں کی ریڑھیاں اورکھوکھے نظرآنے لگے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا پھرسوسائٹی والوں کی خواہش پریہ ریڑھیاں اورکھوکھے اس علاقے سے ختم کروائے گئے اورجدید شاپس کوفروغ دیا

 

 

 

ماڈل ٹاون میں دیکھتے ہی دیکھتے بعض لوگوں نے مقامی لوگوں کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کمرشل کام شروع کردیئے ، کسی نے یونیورسٹی کیمپس توکسی نے ٹی وی اسٹیشن بنانے شروع کردیئے ایسے ہی کئی اوربھی قسم کے کام شروع ہوگئے ، اس کمرشلائزیشن کو مقامی لوگوں‌کے تعاون سے ختم کروا کراس ماڈل ٹاون کو واقعی ماڈل ٹاون بنا دیا گیا

 

 

صاحبزادہ سیف الرحمن نے دنیا میں دہشدت گردی اورمعاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کوبھانپتے ہوئے سیکورٹی کا جدید نظام قائم کیا ، جدید کیمرے ، اعلیٰ تربیت یافتہ سیکورٹی اہلکار،جدیداسلحہ اورایسے ہی اس سکیورٹی سٹاف کے لیے موبائل گشدت کے لیے ہیوی بائیکس ، موٹرسائیکل ، بڑی بڑی گاڑیاں بھی خرید کراسکواڈ میں شامل کی گئیں تاکہ اہل علاقہ کی سلامتی کے لیے کوئی کسر باقی نہ رہے

 

 

سیکورٹی مانیٹرنگ کے لئے کیمرے لگائے گئے پیٹرولنگ کے لئے نئی مہران پانچ کاریں شامل کی گئی ہیں جو دن رات گشت کرتی ہیں جس سے جرائم کے روک تھام میں کافی بہتری آئی ہے چالیس عدد ہونڈا 125 موٹر سائیکل اور13 عدد سی ڈی سیونٹی سکواڈ میں شامل کی گئی اور ان کے اندر ہر بلاک میں انٹری پوائنٹس اور حساس لائنوں میں گارڈز کے لیے نئی چیک پوسٹس لگائی گئی تا کہ موسم کی خرابی کے دوران گارڈ اس لین میں موجود رہیں اور ڈیوٹی میں خلل پیدا نہ ہو-

 

 

پھر یہ ہی نہیں‌کہ لوگوں سے مدد لی گئی بلکہ لوگوں کی مدد کئی بھی گئی ، لوگوں‌کوریلیف دیا گیا ، جس کے لیے کئی ممبران کوبہت بڑی رقم کی ادائیگی کی گئی

2012میں صاحب زادہ سیف الرحمن خان نے سوسائٹی کا چارج سنبھالا تو بجلی کی مد میں صارفین کی ذمہ تقریبا دس کروڑ روپے واجب الادا تھے اور اس رقم کو حکمت عملی کے تحت وصول کیا گیا واپڈا کے لائن لوسز 20 سے 30 فیصد تک جا پہنچے تھے انہیں کم کرکے 10 سے 15 فیصد تک لایا گیا-

 

2008 میں ممبران کو کو پندرہ ہزار روپے نقد ادائیگی بذریعہ چیک کر لیا گیا تھا جن میں ممبران کو کسی وجہ سے نہ مل سکا تھا انھیں ریلیف دیا گیا بجلی کی فی یونٹ قیمت واپڈا اور لیسکو کی طرف سے وصول کی جانے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت سے کم رکھی گئی-

 

مصروف ترین دور میں ماڈل ٹاون کے رہنے والوں کوتفریح فراہم کرنے کی غرض سے سپورٹس فیسٹیول بھی کروائے گئے تاکہ مقامی لوگ ان کھیلوں‌سے تفریح حاصل کرسکیں

 

 

میٹرو کیش اینڈ کیری سٹور سوسائٹی کو ٹیکس نہیں دے رہا تھا انتظامیہ نے فیصلہ کیا اس کی اس کی بجلی کاٹ دی جائے اگلے ہی دن میٹرو کیش اینڈ کیری نے تیس لاکھ روپے ادا کر دیے نئے چناچی میٹرو انتظامیہ کی مدد سے سرکلر روڈ پر سوسائٹی ایل ای ڈی سٹریٹ لائٹس نصب کرائی جس سے سٹریٹ لائٹس کی مد میں 90 فیصد بجلی کی بچت ہوئی اور سوسائٹی کے مالی بوجھ میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی-

 

 

ماڈل ٹآون کے رہنےوالوں کے لیے سینٹرل پارک کے دروازے کھول دیئے گئے ، داخلہ مفت کردیا تھا تاکہ ماڈل ٹاون میں‌رہنے والے خاندان بغیر کسی رکاوٹ کے تفریحی سرگرمیوں‌سے مستفید ہوسکیں‌

 

 

 

سینٹرل پارک میں ممبران کی فیملی کا داخلہ فری کیا گیا اور اب ماڈل ٹاون کے رہائشیوں کو بھی پارک میں مختلف داخلہ کی سہولت دے دی گئی ہے ہے علاوہ ازیں ٹریک پر سلرسسٹم نصب کیا اب خواتین بلا خوف و خطر شام رات کے وقت ٹریک پر واک کر سکتی ہیں نئے باتھ روم کی تعمیر کی گئی ا سینٹرل پارک میں جھیل کی توسیع کی گئی اور اس پر پل کی تعمیر کی گئی چلنے والے راستے پر ٹف ٹائلز لگوائی گئیں-

 

 

لیڈیز ایکسرسائز ایریا کی تعمیر اور خواتین کے لیے یوگا انسٹرکٹر کی تعیناتی کی گئی جذبہ حب الوطنی کے پیش نظر سینٹر پارک کے پیش نظر سینٹرل پارک میں م مین انٹرس پر ایک سو دس فٹ اونچائی پر نیشنل فلیگ نصب کیا گیا

 

سوسائٹی کے صدر صاحبزادہ سیف الرحمن نے ماڈل ٹاون کے رہنے والوں کے لیے شٹل بس سروس بھی متعارف کروانے میں‌ بڑی جدوجہد کی تاکہ وہ لوگ جن کےپاس اپنی گاڑیوں جیسے وسائل نہیں وہ شٹل بس کے ذریعے سفر کرسکیں‌، دوسرا اس بس سروس کا مقصد ماحول کو بھی گاڑیوں کے دھووں اورگردوغبار سے محفوظ رکھنا تھا

 

 

اسی دوران ایک عجیب صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑا جب دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کے دیگرعلاقوں کے رہنے والے محنت مزدوری کرنے والوں نے اس دور کی ایک نئی مسافرسواری جسے چنگ چی رکشہ کا نام دیا گیا نے ماڈل ٹاون کا رخ کرلیا اور سڑکوں پرہر طرف رکشے ہی رکشے نظرآنے لگے ، جس کی وجہ سے شور شرابہ ، گردوغباراورپھرحادثات جیسے واقعات بھی رونما ہونے لگے

 

 

اس بے چینی نے ماڈل ٹاون کےباسیوں کواوربے چین کردیا ، اہل ماڈل ٹاون کے تحفظات اورخدشات کوبھانپتے ہوئے سوسائٹی کے صدر صاحزادہ سیف الرحمن نے رکشہ مزدوروں سے معذرت کرتے ہوئے اس علاقے میں نہ لانے کی درخواست کی اورپھر ساتھ ہی حکام کوبھی اس سلسلے میں تعاون کرنے کا فریضہ سونپا ، ساتھ ہی صدر ماڈل سوسائٹی نے یہ بھی درخواست کی کہ وہ کسی کے روزگار کے چھن جانے اور اس میں رکاوٹ پیدا ہونے سے بہت ڈرتے ہیں لیکن مجبوری ہے کہ یہ لاہور کا بہت پرانا علاقہ ہے مگرطرززندگی جدید ہے ، چنگ چی رکشوں کی وجہ سے اس کے باسیوں‌کو تلیف ہوتی ہے اس لیے رکشہ والوں کو متبادل روٹ فراہم کردئیے جائیں ، جس پرماڈل ٹاون سے چنگ چی رکشہ سواری پرپابندی لگا دی اوررکشہ والوں کومتبادل روٹس فراہم کردیئے گئے

 

 

ماڈل ٹآون میں‌ صفائی اورستھرائی کے نظام کوبہترسے بہتر کرنے کے لیے تمام تروسائل بروئے کارلائے گئے ، یہ بات سننے والوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ صرف اس سوسائٹی سے روزانہ 40 سے 50 ٹن کوڑا کرکٹ اٹھا کردورکہیں ٹھکانے لگایا جاتا ہے جوکہ ایک بہت خدمت خلق کا کام ہے ،

اسی مقصد کے لیے ماڈل ٹاون کے رہنے والوں کی آسانی کے لیے جدید کوڑا دان فراہم کئے گئے تاکہ شہریوں کوکوڑاکرکٹ ٹھکانے لگانے میں‌ دقت نہ ہو

 

 

اس کے علاوہ ماڈل ٹاون کی سڑکوں ، پارکوں گلیوں‌ اوردیگرشاہرات پر سے جنگلی جڑی بوٹیاں بھی ختم کی گئیں‌،تاکہ ماڈل ٹاون کے باسیوں کوگزرنے اورچلنے پھرنے میں‌ کوئی تکلیف نہ پہنچے

اس موقع پرسوسائٹی کے صدر صاحبزادہ سیف الرحمن کویہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں‌نے صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کےخاتمے کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی اورڈینگی اورپھر کرونا جیسی وبائی امراض سے یہاں کے باسیوں کوبچانے اوران کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام تروسائل بروئے کارلائے

لوگوں‌ کو ان خطرناک وبائی امراض سے بچانے کے لیے آگاہی مہم کاآغآز کیا جوبغیر کسی وقفے کے جاری وساری ہے ، ہسپتالوں میں بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کیں‌اورپھرڈینگی اورکرونا جیسے خطرناک وائرس سے بچانے کے لیے ماڈل ٹاون میں جگہ جگہ حفظان صحت کے ضامن اسپرے کروائے گئے ، ان جراثیم کے پھیلاو کوروکنے کے لیے تمام ترکوششیں بھی بروئے کارلائی گئیں جوابھی تک بغیر کسی وقفے کے جاری ہیں‌

 

ماڈل ٹاون میں موجود نہری نظام کوبحال اورفعال کرنے کے لیے صدر سوسائٹی اوران کی ٹیم نے بڑی محنت کی اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ محکموں کے تعاون سے ان کھالوں کوپختہ کیا تاکہ پانی کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے

 

 

 

ایسے ہی ماڈل ٹاون کے ٹیکنیکل مسائل حل کرنے کے لیے سوسائٹی نے فیصلہ کیا کہ بجائے دوسری جگہوں پرجانے کے ماڈ ٹاون میں ہی الیکٹریکل اورمکینکل لیب اورورکشاپ کا قیام عمل میں لایا جائے

پر اس پر کام بھی ہوا اورآج ماڈل ٹاون میں ماڈل ٹاون کے ٹیکنیکل مسائل حل کئے جاتے ہیں ، پانی کی موٹرکی مرمت سے لیکربجلی کے ٹراسفارمر تک کی مرمت اورتجدید سوسائٹی کے اندر ہی ہوتی ہے

 

1950 کی دہائی میں لاہورمیں پینے کے پانی کی فراہمی کا نظآم 

پنے کے صاف پانی کا فراہمی ویسے توہرانسان کی ضرورت ہے مگرسوسائٹی نے اپنے حلقہ احباب کوترجیحی بنیادوں پرفراہم کرنے لیے جید فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کروائی اورآج ماڈل ٹاون میں جگہ جگہ لوگ پینے کا صاف پانی آسانی سے حاصل کررہے ہیں‌

 

2102 میں لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر تھی تھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا تھا سوسائٹی نے دو ٹیوب ویلوں کو عارضی طور پر جنریٹر پر چلا کے دیکھا جس پر بہت زیادہ خرچہ آ رہا تھا

 

 

 

چنانچہ سوسائٹی کے واٹر سپلائی سسٹم کے لیے پہلے سے نصب شدہ چھ ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے ڈبل کنکشن لگا ئے 2012 میں کل 16 ٹیوب ویل چلتے تھے اب بہتر منصوبہ بندی سے10 ٹیوب ویل وہی کام سرانجام دے رہے ہیں جس سے سوسائٹی کو چھ ٹیوب ویل کے بجلی کے بل کی مد میں تقریبا 4 کروڑ روپے سالانہ کی بچت ہوئی تنخواہوں اور مشینری کی مرمت کی مد میں الگ سے بہت کی جاتی ہے –

 

 

ماڈل ٹاون بلا شبہ ایک بہت بڑا ٹاون اوراس میں رہنے والے بھی بڑے بڑے لوگ ہیں‌ان میں بعض نے تو طاقت کے بل بوتے پرقبضے شروع کردیئے اوردیکھتے ہی دیکھتے لوگوں‌ کے پلاٹوں اورمکانوں‌پرقبضے کرلیئے حتی کہ دیگرزمیںیں‌بھی قبضہ مافیا سے محفوظ نہ رہ سکیں ،

 

 

سوسائٹی انتظامیہ نےان قبضہ مافیاوں سے بڑے بڑے پلاٹس ، مکانات اورزمینیں‌واگزارکرواکراصل مالکان کواواپس دلا کرخدمت کا حق ادا کردیا جسے متاثرین کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے

 

ویسے تو اگر سوسائٹی کے ترقیاتی کاموں کو بیان کرنا چاہیں‌تو بہت زیادہ وقت اوربہت زیادہ اوراق کی ضرورت ہے مگریہاں صرف اجمالی خاکہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ ماڈل ٹاون کے باسی اپنی انتظامیہ کی خدمات کاادراک کرسکیں

 

اسی سوسائٹی نے کھیلوں‌کے فروغ کے لیے کرکٹ اکیڈمی ، فٹ بال اکیڈمی ، اسکوائش کورٹ،ٹینس کورٹ ، سوئمنگ پول،جیمنیزیم بلڈنگ جیسے شہرہ افاق نہ صرف کھیل ماڈل ٹاون والوں کے لیے پیش کئے بلکہ کھیلنے والوں‌کے لیے گراونڈ اورمیدان بھی فراہم کئے اورپھریہی نہیں بلکہ کھیل کے شوقین افراد کی رہنمائی کے لیے ماہرین کی خدمات بھی فراہم کیں‌

 

 

اورپھر یہ ہی نہیں کہ یہ سہولیات فراہم کیں بلکہ اردگردسے آنے والوں کے لیے بہترین سفری سہولیات کی فراہمی کے لیےسڑکوں کا جال بھی بچھا دیا ، مزے کی بات ہے کہ یہ سڑکیں بھی میلوں میں ہیں سوسائٹی کی دستاویزات کے مطابق ان سڑکوں کی لمبائی 55 کلومیٹر تک پہنچ چکی ہے

 

 

 

پھر یہ ہی نہیں کہ سوسائٹی نے یہ امور نمٹانے میں کسی پرانحصار کیا ہو، نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ سوسائٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کیا ہے اورہرآنے والے دن کو گزرے ہوئے دن سے بہترثابت کیا ہے ،

 

 

کسی بھی معاشرے میں یا کسی بھی ریاست میں اتنے زیادہ امور کی انجام دہی کو ادا کرنا کوئی معمولی بات نہیں اس کے پیچھے بلا شبہ بہترین حکمت عملی ، بہترین لوگ اورخلوص شامل ہوتا ہے ،یہی خوبیاں ماڈل ٹاون سوسائٹی کی ترقی کے خواہاں ماڈل ٹاون گروپ کی ہیں جس کو ایماندار، محنتی ،محب وطن ، مخلص اور قابل ٹیم ملی ہے جوصاحبزادہ سیف الرحمن کی قیادت میں بڑی محنت سے کام کررہی ہے ،

ویسے بھی یہ کسی اچھی ایڈمنسٹریشن کی نشانی ہے جس کے کام بولتےہیں جسے اپنی شہرت کے لیے دوسروں‌کی ضرورت نہیں ہوتی ،

ایک محاورہ اور ضرب المثل ہے !

"ایک آہری تے سو کاما ” ایک برابر ہوندے نیں‌”

اگررہنما ایماندار ہو، مخلص ہو، درد دل کے ساتھ ساتھ نرم دل رکھنے والا انسان ہوتو وہ ایسے ایسے کام  ہے جوسو سو آدمی بھی مل کرنہیں کرسکتے لیکن ماڈل ٹاون سوسائٹی کی ترقی کا خواہاں ماڈل ٹآون گروپ کا ہر فرد ہی محنتی ، ایماندار،مخلص اوربڑی بات یہ ہے کہ دوسروں کا احترام کرنے والا ، عاجزی سے پیش آنے والا اوران کی دنیا وآخرت کی بھلائی چاہنے والے لوگوں پرمشتمل ہے ،

 

 

میں نے شروع میں دل کے معاملے کے ذکرکوچھیڑا تھا ، ان حقائق کو پڑھنے اورپرکھنے کے بعد میں تواس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ ماڈل ٹاون سوسائٹی والے اپنا دل اپنے ہی چاہنے والوں میری مراد”ماڈل ٹاون گروپ” کودےچکے ہیں اوراس کا سہرا صاحبزادہ سیف الرحمن کوجاتا ہے جن کے دل میں ہرکسی کی عزت ،وقار اوراحترام ہے ، ان کے نام کے ساتھ صاحبزادہ تو لیکن ان کی نظروں میں ہرکوئی صاحب ہے ، کوئی کمزور ہے یا طاقت ور،غریب ہے یا امیر،بڑا ہے یا چھوٹا وہ ان کے لیے”صاحب ” ہے

سنا ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ صاحبزادہ پسند نہیں کرتے ،وہ صرف سیف الرحمن کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں

یہ عاجزی ہے اورجس انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ ہرکسی کواپنے سے بہتر سمجھتا ہے یقینا وہ ” لوگوں کے دل میں بستا ہے ”

 

 

 

یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے اس عہدے کوچھوڑکرعام ممبران کی طرح ماڈل ٹاون  کے باسیوں کی خدمت کا فیصلہ کیا ہے

 

اب ان کی طرف سے معذرت کے بعد اسی ٹیم کے ایک اوراہم ذمہ دار ساتھی داود باری کو اس سوسائٹی  کی خدمت کے لیے صدر کے عہدے لیے میدان میں اتاردیا گیا ہے ،

 

جبکہ نائب صدر کےلیے حسیب الرحمن پرساتھیوں نے اعتما د کرتے ہوئے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ، ایک طرف الیکشن زوروں پر ہے تو دوسری طرف سوسائٹی کے بڑے بڑے نام اس گروپ پراعتماد کرتے ہوئے اپنی ہمدردیوں کو ان کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں

 

 

 

محاوہ ہے خلق  خدا نقارہ است:

شاید یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی تمام ترکوششوں کے باوجود ماڈل ٹاون کے باسیوں کی اکثریت کا یہی نعرہ ہے کہ "ماڈل ٹاون گروپ "ہمار ا ہے

 

اللہ ان کی مدد فرمائے اوران کے خدمت خلق کے جزے اورکام کوقبول فرمائے”آمین

تحریر:محمد امین طاہر:taleempakistan100@gmail.com

Leave a reply