لاوارث ضلع (چنیوٹ ) تحریر : مہر توقیر منظور گھگھ

0
52

 

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں پر ختم۔ہم ایسے بے حس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماؤں کی بے حیائی اور بدعنوانیاں منظر عام پر آنے کے بعد بھی انہیں معتبر سمجھتے ہیں کیا ہم بھی اس جرم کے طرف دار ہیں ۔

لاوارث ضلع چنیوٹ پہلے ضلع جھنگ کا حصہ تھا تقریبا 2008 میں اسے علیحدہ ضلع کا درجہ دے دیا گیا ۔ضلع چنیوٹ 2020 تک تو صرف فرنیچر کی وجہ سے مشہور تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ضلع چنیوٹ انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور افسران بالا کی لاپرواہی کی وجہ سے اجتماعی زیادتی اور درندگی میں پہلے نمبر پر آنے والے ضلع کے طور پر جانا جائے گا ۔بچے تو بچے ٹھہرے یہاں تو اب نوجوان اور بوڑھے بھی غیر محفوظ ہیں ۔کچھ دن پہلے بھوانہ کا واقعہ سن کر اوسان خطا ہو گئے جہاں پر ننھی کلی اقصیٰ کو جسمانی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا ۔قتل کے بعد جب نعش ملی تو ایس ایچ او بھوانہ اور ڈی ایس پی بھوانہ موقع پر پہنچ گئے ۔اپنے انداز میں حسب ضابطہ کارروائی میں مصروف ہوگئے ۔ٹیسٹ کروائے گئے سیمپلز لیے گئے۔اور ادھر کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں خبریں نشر ہونے لگی ۔ہمارے معزز وزیراعلی صاحب نے نوٹس بھی لیا ۔اے آر وائی کے مشہور پروگرام criminal most wanted کی ٹیموں نے آکر پروگرام بھی کیے ۔لیکن آخر کیا ہوا ؟؟ چند دن گزرنے کے بعد تھانہ چناب نگر کی حدود میں حاملہ عورت سے زیادتی کی گئی مقدمہ درج ہونے کے باوجود پولیس ملزمان سے ساز باز رہیں اور کوئی گرفتاری عمل میں نہ لائی جاسکی ۔

اب بات کرتے ہیں لاوارث ضلع کے لاوارث تھانہ کانڈیوال کی ۔تھانہ کانڈیوال کی حدود موضع کلور شریف جو کہ صرف نام کی شرافت تک محدود رہ چکا ہے جنسی درندگی میں نمبر ون بن گیا ۔12 سالہ بچے سے زیادتی کی گئی ۔ملزمان اور پولیس آپس میں بھائی چارہ نبھانے لگے اور مقدمہ درج نہ ہونے کی وجہ سے مدعیان نے مجبورا صلح کرلی۔بعد میں زیادتی کی پوری ویڈیو وائرل کردی گئی ۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملزمان سے بڑھ کر تو پولیس ملزم ہے لیکن کون پوچھے گا۔۔دو دن بعد کلور شریف میں عورت سے زیادتی کا واقعہ جس کا ڈراپ سین بھی کچھ اسی طرح ہوا کہ مدعی کو انصاف نہ ملنے پر مجبورأ صلح کرنی پڑی۔اس کہانی کا اختتام ابھی نہیں ہوا تھا کہ موضع کلور شریف کے تین اوباش لڑکوں نے مل کر ایک اور حوا کی بیٹی کی زندگی برباد کر دی ۔اس مقدمہ نے تو افسران کی فرض شناسی اور کالے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھا دیا جہاں پر زیادتی ایک بھائ نے کی اور پولیس نے اپنی جیب گرم کرکے ایف آئی آر میں دوسرے بھائی کا نام لکھ کر پورے مقدمے پر پانی پھیر دیا ۔جبکہ لڑکی کے گھر والے ابھی تک انصاف کی فراہمی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔

اب تو چنیوٹ ٹرینی ضلع کے نام سے مشہور ہو چکا ہے جہاں پر افسران اور ملازمین کو ٹریننگ کے لئے ایس ایچ او لگا دیا جاتا ہے ۔تو کہیں ہیڈ کانسٹیبل کو سی ائی اے سٹاپ کا انچارج لگا دیا جاتا ہے۔اور پھر بعد میں ان کی شراب نوشی کی ویڈیوز پر انہیں معطل کر دیا جاتا ہے۔یہاں پر سی آئی اے سٹاف بھوانہ کے انچارج کی شراب نوشی کی وائرل ویڈیو پر اسے معطل کیا گیا حالانکہ اسے نوکری سے فارغ کر دینا چاہیے تھا ۔

آج صبح کا سورج ایک اور ظلم اور بربریت کی داستان لے کر ابھرا ۔ایسی داستان جو سننے پر انسانی روح کانپ اٹھی . جسم لرزا گیا ۔جو واقعہ سن کر انسانیت بھی شرما گئی ۔لاوارث ضلع چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے علاقہ محمد شاہ میں اقبال باٹا نامی شخص نے پچاس 50 سالہ ذہنی معذور محمد عارف کو دو ساتھیوں سے ملکر جنسی درندگی کا نشانہ بناڈالا اور ویڈیو بنا کر وائرل کردی عارف کے بھائی کی مدعیت میں درخواست دائر کر دی گئی ۔بھوانہ پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہے مگر کوئی ان صاحبان سے پوچھنے والا ہی نہیں کہ ٹیم کس لیے تشکیل دی آپ نے کوئی لادی گینگ یا چھوٹو گینگ پکڑنا ہے۔

اگر لکھنا شروع کیا جائے تو کتاب بھر جائیں مگر لاوارث ضلع کی داستان ختم نہ ہوں ۔ڈی پی او چنیوٹ آر پی او فیصل آباد اور آئی جی پنجاب سے اپیل کی جاتی ہے کہ خدارا کچھ نظر کرم اس لاوارث ضلع پر بھی ڈال دیں ۔تحریر : مہر توقیر منظور گھگھ 

لاوارث ضلع (چنیوٹ)

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں پر ختم۔ہم ایسے بے حس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں رہنماؤں کی بے حیائی اور بدعنوانیاں منظر عام پر آنے کے بعد بھی انہیں معتبر سمجھتے ہیں کیا ہم بھی اس جرم کے طرف دار ہیں ۔

لاوارث ضلع چنیوٹ پہلے ضلع جھنگ کا حصہ تھا تقریبا 2008 میں اسے علیحدہ ضلع کا درجہ دے دیا گیا ۔ضلع چنیوٹ 2020 تک تو صرف فرنیچر کی وجہ سے مشہور تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ضلع چنیوٹ انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور افسران بالا کی لاپرواہی کی وجہ سے اجتماعی زیادتی اور درندگی میں پہلے نمبر پر آنے والے ضلع کے طور پر جانا جائے گا ۔بچے تو بچے ٹھہرے یہاں تو اب نوجوان اور بوڑھے بھی غیر محفوظ ہیں ۔کچھ دن پہلے بھوانہ کا واقعہ سن کر اوسان خطا ہو گئے جہاں پر ننھی کلی اقصیٰ کو جسمانی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا ۔قتل کے بعد جب نعش ملی تو ایس ایچ او بھوانہ اور ڈی ایس پی بھوانہ موقع پر پہنچ گئے ۔اپنے انداز میں حسب ضابطہ کارروائی میں مصروف ہوگئے ۔ٹیسٹ کروائے گئے سیمپلز لیے گئے۔اور ادھر کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں خبریں نشر ہونے لگی ۔ہمارے معزز وزیراعلی صاحب نے نوٹس بھی لیا ۔اے آر وائی کے مشہور پروگرام criminal most wanted کی ٹیموں نے آکر پروگرام بھی کیے ۔لیکن آخر کیا ہوا ؟؟ چند دن گزرنے کے بعد تھانہ چناب نگر کی حدود میں حاملہ عورت سے زیادتی کی گئی مقدمہ درج ہونے کے باوجود پولیس ملزمان سے ساز باز رہیں اور کوئی گرفتاری عمل میں نہ لائی جاسکی ۔

اب بات کرتے ہیں لاوارث ضلع کے لاوارث تھانہ کانڈیوال کی ۔تھانہ کانڈیوال کی حدود موضع کلور شریف جو کہ صرف نام کی شرافت تک محدود رہ چکا ہے جنسی درندگی میں نمبر ون بن گیا ۔12 سالہ بچے سے زیادتی کی گئی ۔ملزمان اور پولیس آپس میں بھائی چارہ نبھانے لگے اور مقدمہ درج نہ ہونے کی وجہ سے مدعیان نے مجبورا صلح کرلی۔بعد میں زیادتی کی پوری ویڈیو وائرل کردی گئی ۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ملزمان سے بڑھ کر تو پولیس ملزم ہے لیکن کون پوچھے گا۔۔دو دن بعد کلور شریف میں عورت سے زیادتی کا واقعہ جس کا ڈراپ سین بھی کچھ اسی طرح ہوا کہ مدعی کو انصاف نہ ملنے پر مجبورأ صلح کرنی پڑی۔اس کہانی کا اختتام ابھی نہیں ہوا تھا کہ موضع کلور شریف کے تین اوباش لڑکوں نے مل کر ایک اور حوا کی بیٹی کی زندگی برباد کر دی ۔اس مقدمہ نے تو افسران کی فرض شناسی اور کالے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھا دیا جہاں پر زیادتی ایک بھائ نے کی اور پولیس نے اپنی جیب گرم کرکے ایف آئی آر میں دوسرے بھائی کا نام لکھ کر پورے مقدمے پر پانی پھیر دیا ۔جبکہ لڑکی کے گھر والے ابھی تک انصاف کی فراہمی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔

اب تو چنیوٹ ٹرینی ضلع کے نام سے مشہور ہو چکا ہے جہاں پر افسران اور ملازمین کو ٹریننگ کے لئے ایس ایچ او لگا دیا جاتا ہے ۔تو کہیں ہیڈ کانسٹیبل کو سی ائی اے سٹاپ کا انچارج لگا دیا جاتا ہے۔اور پھر بعد میں ان کی شراب نوشی کی ویڈیوز پر انہیں معطل کر دیا جاتا ہے۔یہاں پر سی آئی اے سٹاف بھوانہ کے انچارج کی شراب نوشی کی وائرل ویڈیو پر اسے معطل کیا گیا حالانکہ اسے نوکری سے فارغ کر دینا چاہیے تھا ۔

آج صبح کا سورج ایک اور ظلم اور بربریت کی داستان لے کر ابھرا ۔ایسی داستان جو سننے پر انسانی روح کانپ اٹھی . جسم لرزا گیا ۔جو واقعہ سن کر انسانیت بھی شرما گئی ۔لاوارث ضلع چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے علاقہ محمد شاہ میں اقبال باٹا نامی شخص نے پچاس 50 سالہ ذہنی معذور محمد عارف کو دو ساتھیوں سے ملکر جنسی درندگی کا نشانہ بناڈالا اور ویڈیو بنا کر وائرل کردی عارف کے بھائی کی مدعیت میں درخواست دائر کر دی گئی ۔بھوانہ پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہے مگر کوئی ان صاحبان سے پوچھنے والا ہی نہیں کہ ٹیم کس لیے تشکیل دی آپ نے کوئی لادی گینگ یا چھوٹو گینگ پکڑنا ہے۔

اگر لکھنا شروع کیا جائے تو کتاب بھر جائیں مگر لاوارث ضلع کی داستان ختم نہ ہوں ۔ڈی پی او چنیوٹ آر پی او فیصل آباد اور آئی جی پنجاب سے اپیل کی جاتی ہے کہ خدارا کچھ نظر کرم اس لاوارث ضلع پر بھی ڈال دیں

Leave a reply