آئینی ترامیم کا تماشا،لیڈرشپ کا فقدان،ن لیگ کا المیہ،تجزیہ:شہزاد قریشی
پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کو لے کر دو دن جو کچھ ہوتا رہا، قوم سمیت عالمی دنیا پاکستان نہیں پاکستانی سیاستدانوں کا تماشا دیکھتی رہی۔ سیاسی قافلوں کے قائدین ہی جب ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم نہ کریں تو پھر آئینی ترمیم کیسی؟ وفاقی حکومت میں اتحادی اور آئینی عہدے رکھنے والی جماعت کے قائدین ہی ایک دوسرے کی سیاسی کامیابی کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں تو پھر پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کیسی؟ سب لیڈر شپ کا فقدان ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاسی لیڈر تھے محترمہ بینظیر بھٹو سیاسی لیڈر تھیں پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کرنے والے لیڈر نہیں، سیاستدانوں میں اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم سیاستدان ہیں لیڈر نہیں (ن) کے لیڈر نوازشریف ہیں۔ یہ نوازشریف کی سیاسی بصیرت اور لیڈر شپ ہی تھی جس نے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد واجپائی کو مینار پاکستان پر کھڑا کر دیا تھا یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور بھارت دونوں نے ایٹمی دھماکے کئے تو عالمی دنیا میں آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے۔ یہ نوازشریف کی سیاسی بصیرت ہی تھی جب پی ٹی آئی نے 126 دن دھرنا دیا تو پی ٹی آئی لیڈر شپ سمیت کسی کارکن پر نہ لاٹھی چارج ہوا نہ آنسو گیس گرفتاریاں نہ مقدمات کا اندراج لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا نشانہ تادم تحریر نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ہی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آئی پی پیز نہ تو نوازشریف، نہ ان کے دونوں بیٹے اور نہ ہی دونوں بیٹیوں کا تعلق اور نہ ہی ان کی ملکیت ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس اس وقت کو ئی ترجمان نہیں وفاقی وزراء کی لائن ہے مگر مسخروں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے سوشل میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی اس ملک اور قوم کے لئے خدمات آج کی نوجوان نسل کو علم ہی نہیں اور نہ ہی پیپلزپارٹی نے اس سلسلے میں کوئی اقدامات کئے نوازشریف وزارت اعلیٰ سے لے کر وزارت عظمیٰ تک اور ایٹمی دھماکوں تک اس ملک کے لئے جو خدمات ہیں ان خدمات کو پس پشت ڈال کر مسلم لیگ (ن) نے مقبولیت میں اضافہ نہیں کیا (ن) کا ہر وفاقی وزیر اپنی جماعت اور نوازشریف کی ملک و قوم کے لئے خدمات بیان کرنے سے قاصر نظر آتا ہے جس کا خمیازہ (ن) لیگ بطور جماعت بھگت رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے لے کر ایک کارکن سوشل میڈیا عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی اپنی بات ختم کرتا ہے۔ وطن عزیز کا موجودہ بحران اور انتشار کا حل ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے میں ہے اس وقت مسئلہ سیاسی قوتوں اور اداروں کے ٹکرائو کا نہیں مسائل میں گھری عوام کا بھی ایک مقدمہ ہے۔ طرز سیاست کو بدلنا ہوگا۔ عوامی مفادات اور ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہونگے
میڈیا میں شائع ہونے والا ڈرافٹ اصل نہیں ہے۔
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آئینی ترمیم کے مسودے پر کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی
آئینی ترامیم جمہوریت پر حملہ،سیاسی جماعتوں کو شرم آنی چاہیے،علی امین گنڈا پور
آئینی عدالتیں عالمی ضرورت ہیں، انوکھا کام نہیں کر رہے: بیرسٹر عقیل ملک
آئینی ترمیم کی ناکام کوشش: حکومت اور اتحادیوں میں اختلافات نمایاں، بیر سٹر علی ظفر
پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی آئینی ترمیم پر بات چیت جاری ہے،خورشید شاہ
سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر