ظلم رہے اور امن بھی ہو، سلیب گردی کی داستان
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستانی سنیما کی تاریخ میں "یہ امن” (1971) ایک ایسی فلم ہے جو نہ صرف فنکارانہ بصیرت کی حامل تھی بلکہ سماجی اور سیاسی شعور کی بھی عکاس تھی۔ ہدایت کار ریاض شاہد نے اس فلم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بے نقاب کیا۔ ابتدا میں اس فلم کا نام "امن” تھا لیکن سنسر بورڈ کی سخت پابندیوں نے اسے "یہ امن” میں تبدیل کر دیا۔ فلم میں کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم کو جرات مندانہ انداز میں پیش کیا گیا، لیکن سنسر بورڈ کی مداخلت نے اس کی اصل روح کو مسخ کر دیا۔ اس صدمے کا اثر ہدایت کار ریاض شاہد پر اتنا گہرا پڑا کہ وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ فلم کے نغموں کی شاعری معروف انقلابی شاعر حبیب جالب نے لکھی، جن کے اشعار ظلم کے خلاف ایک توانا آواز تھے۔ ان میں سے گیت "ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو” جو میڈم نور جہاں کی سحر انگیز آواز میں گایا گیا اور اداکارہ سنگیتا پر فلمایا گیا، نہ صرف فلم کا مرکزی خیال تھا بلکہ آج بھی اس کی معنویت قائم ہے۔ یہ گیت ظلم کے مقابلے میں امن کی خواہش اور اس کی ناممکنات کو بیان کرتا ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ فلسطین، غزہ اور پاکستان کے اپنے اندرونی مسائل کے تناظر میں ایک عالمگیر پیغام رکھتا ہے۔
فلم "یہ امن” نے کشمیر کے مظلوم عوام کی داستان کو اجاگر کیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالی، غیر قانونی گرفتاریاں، تشدد اور پرامن مظاہرین پر گولیاں چلانا معمول بن چکا ہے۔ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے، جہاں کرفیو، انٹرنیٹ کی بندش اور فوجی چھاؤنیوں نے عام زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ اسی طرح فلسطین اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ غزہ پر ناکہ بندی نے 20 لاکھ سے زائد افراد کو بنیادی اشیاء جیسے خوراک، ادویات اور ایندھن سے محروم کر رکھا ہے۔ اسرائیلی بمباری اور فوجی کارروائیوں میں ہزاروں معصوم بچے، خواتین اور بزرگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ دونوں خطے ظلم کی ایسی داستانیں ہیں جو عالمی برادری کی خاموشی کی وجہ سے مزید گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ حبیب جالب کا شعر "اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے، میری زبان کو مت روکو” آج بھی ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
پاکستان میں آج کے دور میں ظلم کی ایک نئی شکل عوام کو ناجائز بجلی کے بلز، غیر منصفانہ سلیب سسٹم اور بے لگام مہنگائی کی صورت میں جھیلنی پڑ رہی ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کی سربراہی میں وزارت توانائی پر الزام ہے کہ وہ بجلی چوری اور لائن لاسز کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بجائے ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جن سے ایماندار صارفین کو بھی غیر منصفانہ ڈیٹیکشن بلز اور طویل لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سلیب سسٹم جو بظاہر صارفین کو ریلیف دینے کے لیے بنایا گیا تھا عملاً ایک غیر منصفانہ نظام بن چکا ہے۔ اس کے تحت بجلی کے بلز میں اضافہ اور ناجائز ڈیٹیکشن بلز نے متوسط اور غریب طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ خاندان اپنی بچیوں کا جہیز بیچ کر، اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اور حتیٰ کہ قرض لے کر یہ بلز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور کئی افراد اس معاشی بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے خودکشی جیسے انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں۔
عوام پر ہونے والا یہ وحشیانہ ظلم کیا وزیراعظم میاں شہباز شریف کو دکھائی نہیں دیتا؟ کیا اویس لغاری اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ وزیراعظم کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے؟ جہاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج گولیوں اور تشدد سے معصوم کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اور غزہ میں اسرائیلی بربریت بمباری سے ہزاروں جانیں لے رہی ہے، وہیں پاکستان میں اویس لغاری کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی پالیسیوں نے عوام کو معاشی موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں ظلم کی شکل گولی اور بمباری ہے لیکن پاکستان میں یہ ظلم ناجائز بلز، غیر منصفانہ سلیب سسٹم اور معاشی دباؤ کی صورت میں ہے۔ عوام اپنے پیاروں کو داغ مفارقت دے رہے ہیں کیونکہ وہ اس معاشی بربریت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ اویس لغاری کی اس بربریت کا حساب کون لے گا؟ کیا وزیراعظم میاں شہباز شریف اس قابل ہیں کہ وہ عوام پر مسلط کردہ اس واپڈا گردی کے خلاف ایکشن لیں؟ کیا وہ ایک عوامی لیڈر ہونے کا حق ادا کر پائیں گے؟
حبیب جالب کا شعر "ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو” آج بھی ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا ہم اس ظلم کے خلاف خاموش رہیں گے؟ کیا ہم میاں شہباز شریف اور اویس لغاری کی پالیسیوں کو چپ چاپ سہتے رہیں گے؟ کیا ہم یہ مان لیں کہ ظلم صرف دوسرے ممالک میں ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ سلیب گردی اور واپڈا گردی محض ایک "نارمل” عمل ہے؟ فلم "یہ امن” ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کو بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا ایک فنکار، شاعر اور شہری کا فرض ہے۔ اگر میاں شہباز شریف عوام کو اویس لغاری کی معاشی بربریت سے بچا سکتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر وہ اس امتحان میں کامیاب نہ ہوئے تو عوام کو خود اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔
جب تک غیر منصفانہ پالیسیاں، ناجائز بلز اور معاشی دباؤ عوام پر مسلط رہیں گے، امن ایک سراب ہی رہے گا۔ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کی طرح پاکستان کا عام شہری بھی ظلم کا شکار ہے۔ فلم "یہ امن” کا پیغام آج بھی زندہ ہے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد ہی امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ حبیب جالب کا شعر "اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے، میری زبان کو مت روکو” ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا حق ہے۔ یہ صرف ایک گیت نہیں بلکہ ایک سماجی اور سیاسی چیلنج ہے جو ہمیں عمل کی دعوت دیتا ہے۔ پاکستانی عوام کو اس معاشی ظلم اور سلیب گردی کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھانی ہوگی کیونکہ خاموشی ظلم کو تقویت دیتی ہے۔ آئیے، ہم حبیب جالب کے پیغام کو اپنائیں اور اس معاشی بربریت کے خلاف جدوجہد کریں۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں،یہ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم خاموش رہیں یا اپنی زبان کو آزاد کریں۔