لبرلزم تحریر : عثمان غنی

0
43

عزتوں کے کچرا دان میں ایک اور بھرے ہوئے شاپر کا اضافہ۔ڈالنے والے صاحب نے بڑی شان سے زلت کے بازار سےبےغیرتی کی چادر لی اور تمکنت بھری چال چلتا ہوابے حیائی کے دفتر پہنچا۔وہاں ایک لمبا عرصہ غلیض زہنیت کی کلاس لی۔اب تربیت مکمل ،جزبے بلند ،سوچ پختہ،اور دماغ اپنی حفظ کی گئی چیزوں کو عمل میں لانے کے لئے بےتاب ہے۔۔۔غالبا تھیوری کو جتنا بھی کلاس میں رٹا جائے مگر جب تک اسے پریکٹکلی پرفارم نہ کیا جائے وہ کسی کام کی نہیں ہوتی۔اب وہ صاحب بھی عملی زندگی میں ہیں۔اور وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس بات کا انحصار اس سے بلواسطہ یا بلاواسطہ منسلک لوگوں کی بزدلی اور کم فہمی پر ہے۔ایسے لوگ اس کا زبردست ترین شکار ہیں جو لبرل ازم (اندر ہی اندر اسی سے دوستی کے خواہاں)کے خواہاں ہیں۔وہ صاحب آہستہ آہستہ اپنا حلقہ احباب بڑھاتے جاتے ہیں۔اور حلقہ احباب میں ہے کون۔۔۔۔۔یا تو کچے زہن کا کم عمر طبقہ یا پھر انہیں صاحب جیسے آزادی (بےراہ روی)طلب گار۔۔یہ صاحب اپنی تبلیغ کا آغاز اخلاق سے عاری گفتگو کر کے کرتے ہیں۔اور اس گفتگو کے بعد ان کو تین طرگ کے لوگ ملتے ہیں ۔ایک وہ جو ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔دوسرے وہ جو چپ رہتے ہیں ۔تیسرے وہ جو ان کو برا خیال کرتے ہین اور ممکن حد تک ٹوکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اب جو پہلے گرہ کے لوگ ہوتے ہیں بغیر کسی محنت کے ان صاحب کی باتوں میں آجاتے ہیں۔بلکہ وہ ہوتے ہی انکے چیلے ہیں۔دوسرے لوگ ان کا مشکل ہدف ہیں مگر یہ بھی نا ممکن ثابت نہیں ہوتے۔اور آخری گرہ کو فرسودہ کہے کر ان پر خاص محنت نہین کی جاتی۔
زرا سوچئے۔۔۔ایسے لوگ ہمارے درمیان بیٹھ کر ایسی گندی گفتگو کرتے ہیں ۔اور ہم سنتے رہتے ہین کہ صرف زبان خراب ہے دل کے صاف ہیں ۔ہماری زبان ہماری پہچان ہوتی ہے۔اس سے ہمارے خاندان ہماری روایات ہمارے مزہب کا پتہ چلتا ہے۔یہ لوگ کہیں باہر سے نہیں ہماری فیملیز سے ہوتے ہیں ۔ہمارے دوستوں میں سے ہوتے ہیں۔مگر ہم ان کو مارجن دیتے ہیں۔ایک ہدیث کے مطابق اگر کسی ن شخص نےجو چیز دو ٹانگوں کے درمیان ہے اور جو اور دو جبڑوں کے درمیان ہے اس کی حفاظت کر لی اس پر جنت واجب ہے گئی۔
اور آج حالت ایسی ہے کہ گالی فیشن ہے گندی اور غلیظ گفتگو خوش اخلاقی ہے۔کیا آج جو گفتگو عام گھروں میں ہورہی ہوتی ہے وہ درست ہوتی ہے ؟؟؟؟کیا اس کو کچے زہن کے کم عمر بچوں کے سامنے کرنا درست ہے؟؟؟
وہ لباس جو آپ روزانہ کی بنیاد پر زیب تن کر کے جاتے ہیں کیا درست ہے ۔چھوٹی بچیوں کے کپڑوں سے بازو غائب اور عورتوں کے کپڑوں سے دوپٹہ اور گفتگو کو تو رہنے ہی دیجئے
آہستہ آہستہ عزتیں کچرا دانون کی زینت بنتی جارہی ہیں ۔اور جن لوگ ان کو اب سر کا تاج بنا رکھا ہے ان بیک ورڈ کہا جاتا ہے ہے۔
کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں ایک شخص نے اپنی کزن کے نام پرلکھ کر غیر اخلاقی شاعری خانہ کعبہ میں لگا رکھی تھی۔واضح رہے کہ ان لوگوں کے لئے ایک مخصوص لفظ جاہل اور اس زمانے کے لئے جاہلیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔اور آج کے ماڈرن زمانے میں ہر شخص "کزن”کے عنوان سے آنے والی پوسٹس کو لائک کرتا ہے کمنٹ کرتا ہے وغیرو وغیرہ۔آج کل فیس بک کی مشہور پرسنیلٹی پھپھو کی بیٹی ہے۔زمانہ "جاہلیت”اور جدید دور میں بس اتنا فرق رہے گیا ہے کہ اس قت خالا کی بیٹی "تھی "اب پھپھو کی بیٹی "ہے”۔اور ہاں خصوصا سرائیکی و کو چاچے کی چھوکری نے بھی تنگ کر رکھا ہے۔بلکہ اب یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پہلے ایک تھی اب تو ساری ہی آگئیں۔
زرا سوچئے ۔۔۔کیا ہوا کی بیٹیاں اتنی ارزان ہیں کہ ان کے کردار کو فیس بک کی زینت بنا دیا جائے؟؟؟اگر کوئی مرد کہے دے کے فلاں لڑکی مجھ پر مرتی ہے تو ہم بغیر کسی تحقیق کے مان لیتے ہیں۔اور آگے بھی اس کو خوب مرچ مسالے لگا کر پیش بھی کرتے ہیں۔اس سے ہم خود کو کیا ثابت کر نا چاہ رہے ہیں؟؟؟؟جبکہ ہم جاہل بھی نہیں ہیں ۔۔۔
میں نے اکثر باپردہ لڑکیوں یونیورسٹیوں میں آتے ہی پردہ اتارتے دیکھا ہے۔غالبا پردہ ان کے لئے ایک تنگ زہنیت ہے ۔جب لوگ کہتے ہیں کہ اب جدید دور ہے اور ہر چیز میں تیزی آگئی ہے تو میں مان لیتی ہوں۔روز ہی ہزاروں لڑکیاں تنگ زہنوں(گھروںمیں پردہ) سےکھلے زہنوں (یونیورسٹیوں میں پردہ اتار دینے)میں سفر کرتی ہیں۔
ہمیں ان فتنوں سے نکلنا ہے ۔ورنہ آج ہم میں اور زمانہ جاہلیت میں کوئی فرق نہیں رہے گیا۔جدید دور نے ہمیں اپنے پیچھے اسقدر ہلکان کر رکھا ہے ۔کہ ہم اپنا سب کچھ بھول چکے ہیں۔ہم آئڈیلزم کا شکار قوم ہیں ۔ہم میں اگر ایک شخص کوئی غلط راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے بھی فالورز نکل آتے ہیں۔ہمیں اپنے زہنوں کو اسلام کے نور سے منور کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے اندر سے چھوٹی چھوٹی برائیاں ختم کرنی ہوں گی۔ہمیں دوبارہ انہیں "فرسودہ”روایات کو اپنانا ہوگا۔تب کہیں جاکر ہم اپنا آپ پہچانے گے۔۔


Usman Ghani is a Freelancer, Blogger He is associated with many leading digital media sites in Pakistan. To find out more about him visit her        Twitter Account(@UsmanSay_)  

Other Article Usman Ghani

 

 

Leave a reply