لباس کے آداب تحریر : انوشہ امتیاز

0
73

لباس اللّٰہ کی ایک ایسی نعمت ہے جو اس نے اپنی مخلوق میں صرف انسان کو عطا کی ہے، اللّٰہ کی اس نعمت پر ہمیں اللّٰہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے اور اس شکر گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم لباس اللّٰہ کے احکامات کے مطابق پہنیں اگر ہم لباس کے انتخاب اور اسے استعمال کرنے کے سلسلے میں اللّٰہ کے احکامات کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کے مطابق لباس پہنیں گے تو یہ اللّٰہ کی نافرمانی ہو گی، اس لئے ہمیں لباس کے ضمن میں ان تمام احکامات کو سامنے رکھنا ہو گا تاکہ ہم صحیح معنوں میں اس نعمت کا شکر ادا کر سکیں۔۔
لباس انسان کی ظاہری وضع قطع کو اجاگر کرتا ہے، کسی کے لباس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اسلام میں ایسے لباس کو اہمیت دی گئی ہے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے، دراصل لباس کا اصل مقصد ہی ستر پوشی ہے، ایسا لباس انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا جائے گا جو ستر پوشی اور شرم و حیا کے تقاضوں کو پورا نہ کرے، حیا ایمان کا حصہ ہے، اگر حیا نہ رہے تو انسان ایمان کے منافی کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، جیسا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا،
"جب تجھ میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کر ”
لہذا جس شخص کو اپنا ایمان عزیز ہو گا وہ ایسا لباس اختیار کرے گا جو شرم و حیا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو، اس سلسلے میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام میں مرد و عورت کے ستر کی کیا حدود ہیں، کہ جن کو چھپانا اور ان کی حفاظت کرنا ضروری اور فرض ہے ستر کے سلسلے میں حدیث میں آتا ہے کہ
” جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ ستر ہے ( جس کا چھپانا فرض ہے ) اور جو کچھ ناف کے نیچے ہے وہ ستر ہے ( جس کا چھپانا فرض ہے )
یعنی مرد کا ستر ناف
سے لیکر گھٹنوں تک ہے اس سارے بدن کو ڈھانپنا فرض ہے، عورتوں کا ستر سوائے چہرے اور ہاتھوں کے تمام جسم ہے، اور سوائے شوہر کے تمام نامحرموں سے ستر کو چھپانا فرض ہے ، حدیث میں آیا ہے کہ،
” جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے، سوائے چہرے کے اور ہاتھ کی کلائی کے جوڑ تک ”
ہمارے ہاں عموماً مرد ستر پوشی میں لا پرواہی برتتے ہیں اور مکمل لباس نہیں پہنتے جبکہ عورتیں ایسا لباس زیب تن کرتی ہیں جو انکی ستر پوشی کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، یا تو آدھی آستین کا لباس یا بغیر آستین کا لباس پہنتی ہیں جو ستر پوشی کے منافی ہے، لہزا عورتوں کو مکمل لباس پہننا چاہئے جو ان کے تمام جسم کو ڈھانپ سکے، اس کے علاؤہ عورتوں کے لئے دوپٹہ یا چادر وغیرہ اوڑھنا بھی ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ،
‘اور ( اے پیغمبر ) مسلمان عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر وہ زینت جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں ( سینوں) پہ ڈال لیا کریں ”
لباس کے انتخاب کے وقت شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، عورتوں کو مردوں سے مشابہ لباس پہننے سے پرہیز کرنا چاہئے اسی طرح مردوں کو عورتوں جیسے لباس ا ختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے ، اسلام نے مرد و عورت کی علیحدہ علیحدہ حدود مقرر کی ہیں جن سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے،
حدیث میں ہے ،
” لباس کی سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک ہے ”
اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں غیروں کے لباس اور وضع قطع اختیار کرنے کی اندھی تقلید سے بچائے اور اپنا لباس تمام لوازمات کے ساتھ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔۔
آمین ۔۔

Leave a reply