میں سفید کپڑوں کے قابل نہیں تھا، ازقلم: سالار عبداللہ

0
59

ہوا نہیں تھی پر گرد اٹھ رہی تھی دھول کے بادل چھائے ہوے تھے میرے ہر قدم پہ دھول اٹھتی اور گردوپیش گردوغبار چھا جاتا، پر میرے سفید کپڑے ویسے ہی صاف تھے، جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے، ان پہ کچھ اثر نہیں ہوا، اماں مجھے کبھی سفید سوٹ نہیں لیکر دیتی تھیں ، وہ مسکراتے ہوے کہتی تھیں کہ توں اس قابل ای نئیں، اور واقعی میں اس قابل ای نئیں تھا، مجھے گرد پیاری لگتی تھی، مجھے بھیڑ سے نفرت تھی نام و نمود سے ہچکچاتا تھا، بڑے بڑے عزت داروں کو منہ نہیں لگاتا ، اپنے جیسے چھوٹے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش ہوتا ، دھڑام سے کچی زمین پہ بیٹھ جاتا تھا، صبح فجر کے فوری بعد جب سڑکیں ویران ہوتی تھیں تو میں سڑک کی بند دکانوں کے تھڑے پہ بیٹھا مسواک کرتا ہوتا تھا ، کوئی فکر نہیں کہ تھڑا گندا ہے یا ڈسٹ جمی ہے، بس وہیں بیٹھا مسواک کرتا رہتا اور سامنے موجود ڈسٹرکٹ جیل کو تکتا رہتا، وہ جیل جس میں ہزاروں کہانیاں چھپی تھیں، عجیب داستانیں وہ جو یونیورسٹی تھی جرائم کی، جہاں مجرم پیدا ہوتے تھے، اعلی تعلیم حاصل کرتے تھے، جیل کی چھوٹی چھوٹی دیواریں ہوتی تھی جن کے ساتھ گونگلو مولیوں کے کھیت تھے، اسکے بعد عملے کے کوارٹر اور پھر سنٹرل جیل، وہیں بیٹھ کر میں مسواک کرتا جاتا اور اس ریڑھی والے کا انتظار کرتا رہتا تھا جس کے چاول چھولے مجھے پسند تھے، مجھے کبھی بڑے بڑے ریستوران پسند نہیں آئے، برگر کنگز ، ھارڈیز ، میکڈونلڈ سے زیادہ پسند رفیق چھولوں والے کے چاول چھولوں کا پیالہ تھا، آج بھی، مجھے ڈنکی ڈونلڈ اور گلوریا جینز کی کافی سے زیادہ پسند چاچا کھوچے کی چائے تھی، کھوچا اسے ہم پیار سے کہتے تھے ورنہ نام اسکا فیض خان تھا اور تعلق ڈمہ ڈولا سے تھا، اس بندے نے یہاں چائے کا کام شروع کیا اور چھا گیا، یہ میں کدھروں کدھر پہنچ گیا، اڑتی دھول میں چلتے ہوے حد نگاہ بہت کم تھی دھول میں سائے لہرا رہے تھے، بھنبھاہٹیں سنائی دے رہی تھیں، جیسے مکھیاں بھنبھناتی ہیں، چلتے چلتے ٹھوکر لگی تو پتہ چلا وہ بھنبھناہٹیں مکھیوں کی ہی تھیں، مگر وہ مکھیاں ایک سوختہ لاش پہ بھنبھنا رہی تھیں ، دھول کم ہونا شروع ہوئی، اور لاش کے آگے پھر لاش پڑی نظر آئی اور پھر لاشیں ہی لاشیں ، تہبند اور کریزوں والے قمیص پہنے یہ لوگ پتہ نہیں کون مار کر گرا گیا، لاشوں سے بچتا آگے جاتا رہا ، اور لاشوں کے مزید انبار نظر آتے گئے، ایک جگہ ایک آدمی ایک بدنصیب عورت کی سوختہ لاش کی کٹی ہوئی کلائی سے سونے کی باریک سی چوڑی نکال رہا تھا، میں اسکے قریب گیا، وہ سہم گیا، اسکے کرتوت نظر انداز کرتے ہوے اسکے قریب گیا اور حیرت سے پوچھا ۔۔ کون تھے یہ لوگ، اس نے تھوک نگلا اور بولا ۔۔ امرتسر سے جو قافلہ نکلا تھا ۔۔۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا اور بے ساختہ قدم پیچھے کی جانب جانے لگے، دل کر رہا تھا بھاگ جاؤں، پیچھے منہ کیا اور سرپٹ بھاگنے لگا یکدم ایک بچے کی باسی لاش سے رپٹ کر گرا اور ناک پہ چوٹ سے کچھ لمحوں کے لئے ہواس معلق ہوگئے، گھٹنوں کے بل اٹھ کر دیکھا میرا سارا سفید سوٹ سیاہی مائل سرخ خون سے رنگ چکا تھا، چکراتے سر کے ساتھ میں نے اپنے کپڑے دیکھے اور اٹھ کھڑا ہوا، سامنے قصور کا سٹیشن تھا، سٹیشن کے ساتھ تاحد نگاہ محاجر کیمپ لگے تھے جن میں شاید ہی کوئی خاندان مکمل پہنچا ہوگا، ورنہ خاندانوں کے نام پہ چند خوشقسمت افراد بچے تھے باقی سب مارے گئے، سگنل اٹھ چکے تھے، گاڑی آنے والی تھی، لمبے ھارن کی آواز آئی اور بھاپ والا انجن بھاپ اڑاتا سٹیشن میں داخل ہوا، ہجوم اکٹھا ہوگیا، لوگ ٹرین کے گرد پھیلنے لگے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے واپس آنے لگے، بھاپ چھٹ رہی تھی، میرے قدم ٹرین کی طرف اٹھ رہے تھے، پھر وہی خون کی باس آنے لگی، ٹرین میں مسافروں کی جگہ اعضاء تھے، یکدم کسی ٹرین سے ایک بکسا کھینچ کر نیچے اتارا اور بکسے پہ جما سارا خون اُڑ کر میرے کپڑوں پہ گر گیا، لوتھڑوں اور خون سے میرے سفید کپڑے پھر سرخ ہوگئے ، بکسے کے اوپر پڑا ایک مرتبان اُڑتا میرے سر پہ لگا، میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا، ہوش آئی تو میں پھر وہیں جیل کے دروازے کے سامنے بنے گرد آلود تھڑے پہ بیٹھا مسواک کر رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، اماں ٹھیک کہتی ہیں ۔
میں سفید کپڑوں کے قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔
سالار عبداللہ
#سالاریات

Leave a reply