ماں باپ کی انا.تحریر: یاسر خان بلوچ

0
37

ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر ماں باپ اپنی بیٹی کیلئے جاہل،گنوار،نکما اور فضول شخص سلیکٹ کر لیتے ہیں مگر ایک اچھا ویل ایجوکیٹڈ پرسن رشتہ لے آئے اورکہے کے میں آپکی بیٹی سے محبت کرتا ہوں تو وہ اسے ریجیکٹ کر دیتے ہیں بنا کسی جواز کے اور اپنی بیٹی سے پوچھنا تک گواراہ نہیں کرتے۔
جبکہ ان کی اپنی بیٹی بھی اسے لائیک کرتی ہو وہ اپنی ہی اولاد کی پسند کو اپنی انا کا مسلۂ بنا لیتے ہیں کہ اس نے ہماری اجازت کے بنا باہر کیوں محبت کی؟
جبکہ دوسری طرف اسلام نے اس بات کی مخالفت کی ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر آپ کے گھر کوئی رشتہ آتا ہے تو اپنی بیٹی یا بیٹے سے فیصلہ کرنے سے پہلے ضرور مشورہ کرو اور اسے فل اختیار دیں کہ وہ آزادانہ طور پر اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔اگر اسے پسند ہو تو آپ بھی پسند کریں اور اگر اسے پسند نہ ہو تو اسے مجبور نہ کریں۔
جبکہ ہمارے ہاں یہ بات دور دور تک عمل میں نہیں ہے۔پہلے تو کوئی اپنی بیٹی سے پوچھتا نہیں اور اگر کوئی دوسرا اسے اپنی اولاد سے مشورہ کرنے کا کہے تو اسے جواب دیتے ہیں ہمارا خون ہے ہمیں پتا ہے کہ ان کیلئے کیا برا ہے اور کیا اچھا، بھلا کوئی ماں باپ بھی اپنی اولاد کا برا چاہتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری بیٹی کو بھی ہماری پسند پر اعتراض نہیں ہوگا۔
دوسری طرف اگر کوئی والدین اپنی بیٹی سے پوچھ لیں اور جواب میں اگر وہ اعتراض کر دے تو اسے اپنی انا بنا لیتے ہیں۔اور اس پر بدچلن کا ٹائیٹل لگا دیتے ہیں۔اس سے پورا گھر بلکہ پورا معاشرہ تک منہ موڑ لیتے ہیں۔اس بیچاری پر دباوٗ ڈالا جاتا ہے ہر کوئی اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے دوست،رشتہ دار اور گھر والے سب۔
اگر والدین اپنی بیٹی سے پوچھیں اور بیٹی انکار کر دے اور والدین بیٹی کی مان لیں تو لوگ اس لڑکی پر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اس پر گندے گندے الزام لگائے جاتے ہیں۔انجام یہ کہ اس کے والدین لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی بیٹی کی نہیں سنتے اور بس یہ کہ دیتے بیٹا ہم مجبور تھے۔

اپنی بیٹی کی زرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھنے والے بھی ایسے موقع پر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور اپنی عزت لے کے بیٹھ جاتے۔
المیہ یہ کہ وہ اپنی بیٹی کی پسند کو قتل کر دیتے اور وہ بھی بے دردی سے، اور اگر ان کا یہ فیصلہ غلط ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ بس نصیب!! اس کے نصیب میں ایسے تھا۔
ہم اپنے رسم و رواج کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی زندگیاں برباد کرتے ہیں۔اسی رسم و رواج کی وجہ سے بعض لڑکیاں گھر کی دہلیز پار کر جاتی ہیں وہ اپنے والدین کو نہیں بتا سکتی کہ انہیں فلاں شخص سے محبت ہے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے والدین اس کی پسند کو قبول نہیں کریں گے۔بعض اوقات لڑکیوں کا گھر سے قدم اُٹھانے کی وجہ ان کے گھر کا ماحول ہوتا ہے کہ اس کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے دل کی بات اپنے گھر والوں کو کھل کر کہ سکے۔کیونکہ ان کو ڈر ہوتا کہ کہیں ان کی جان نہ لیں لے۔

بیٹی کا گھر کی دہلیز پار کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو کھل کر سب بتا دے کہ اسے فلاں شخص سے محبت ہے۔اسے کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے کسی بھی قیمت پر اسے بتا دینا چاہیے۔ اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی بات سنیں اور اس شخص کے بارے میں تصدیق کریں اگر اچھا لگے تو ٹھیک نہیں تو بیٹی کو آگاہ کریں نا کہ اسے اپنی انا کا مسلۂ بنا ئیں۔
اور خدارا اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا تعلق رکھیں کہ وہ اپنے بارے کوئی بھی فیصلہ لینے لگے تو آپ کو بتائے اور اسے یقین ہو آپ اس کی بات سنیں گے اور اسے اپنی انا کا مسلۂ نہیں بنائے گے۔

Leave a reply