مداح آج لازوال دھنوں کے خالق نثاربزمی کی 96 ویں سالگرہ منا رہے ہیں

0
25

پاکستان شوبز انڈسٹری لازوال دھنوں کے خالق نثاربزمی کی آج 96 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

باغی ٹی وی : نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نثاربزمی 1924 میں ممبئی کے نزدیک خاندیش کے قصبے میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو ڈرامے ”نادرشاہ درانی“ کی موسیقی ترتیب دینے سے کیا جبکہ بطورموسیقار ان کی پہلی فلم ’جمنا پار‘ تھی جو 1946 میں ریلیز ہوئی-

انہوں نے تقریبا 40 بھارتی فلموں میں موسیقی کی ترتیب کی ممبئی میں ان کا ستارہ اس قدر عروج پرتھا کہ لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقار اُن کی معاونت میں کام کر چُکے تھے لیکن پاکستان فلم انڈسٹری کے معمار فضل احمد فضلی کے بلاوے پر انہوں نے بھارت چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کرلی

ان کی بطور موسیقار پاکستان میں پہلی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ تھی جس میں ان کے گیت’محبت میں تیرے سرکی قسم ایسا بھی ہوتا ہے‘ پر احمد رشدی اور میڈم نور جہاں نے اپنی مدھر آوازوں کے جادو جگائے۔

جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑکرنہیں دیکھا اور ’صاعقہ‘،’انجمن‘، ’میری زندگی ہے نغمہ‘، ’خاک اور خون‘ اور ’ہم ایک ہیں‘ جیسی فلموں کی موسیقی تخلیق کی۔

1966 میں انھوں نے ’لاکھوں میں ایک کی‘ موسیقی مرتب کی تو پاکستان کی فلمی دنیا میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ بمبئی کا یہ موسیقار محض تفریحاً یہاں نہیں آیا بلکہ ایک واضح مقصد کے ساتھ یہاں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے –

موسیقار نثار بزمی کو ان کی فنی خدمات کے باعث پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

نثاربزمی کو نیم کلاسیکی دھنوں سے لے کر فوک اور پاپ میوزک کی دھڑکتی پھڑکتی کمپوزیشن تک ہر طرح کی بندشوں میں کمال حاصل تھا اسی لئے محمد رفیع، احمد رشدی، مہدی حسن اورنورجہاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے رونا لیلٰی اور اخلاق احمد جیسی آوازوں کو بھی نکھرنے اور سنورنے کا موقع دیا۔

تاہم میوزک کے میدان کےعظیم موسیقار22 مارچ 2007 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی تخلیق کردہ موسیقی آج بھی کروڑوں لوگوں کو مسحورکردیتی ہے۔

Leave a reply