ماہ نیم شب
تحریر:فرح علوی
وہ ہسپتال کے ویٹنگ روم میں بیٹھا اپنی باری آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اندر کو دھنسی آنکھیں اور چہرے پر کرب کی بے شمار کہانیاں لکھی تھیں۔ ملگجی سا میلا کچیلا لباس اور ٹوٹے پھوٹے جوتے پہنے ہوئے، اس کی حالت بہت قابلِ رحم تھی۔
"شاکر خان۔۔۔۔۔۔!” نرس نے اس کا نام پکارا تو وہ بے تاثر سی خالی خالی نظروں سے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے جونہی روم کے اندر داخل ہوا تو اس کی نظر اپنے سامنے بیٹھی ڈاکٹر ادینہ پر پڑی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر گھوم سا گیا۔ حیرت و بے یقینی کے عالم میں اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ فائل پر جھکا چہرہ، جس پر بلا کا اعتماد تھا۔ بالوں کا بنا بیک کومب اسٹائل اور سادہ سے سوٹ پر اوور آل پہنے ہوئے، وہ بہت باوقار لگ رہی تھی۔
"آئیے۔۔۔۔۔۔” فائل سے نظریں ہٹا کر اس نے اپنے سامنے کھڑے شاکر خان کی طرف دیکھا تو چہرے پر چھائے اطمینان کی جگہ اضطراب نے لے لی۔ وہ حیرت و بے یقینی کے عالم میں کھڑی ہو گئی۔ جھریوں زدہ چہرے کے پیچھے ماضی کی اندوہناک کہانیاں واضح لکھی ہوئی تھیں۔ وہ ان تحریروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی تھی، مگر یہ امر اس کی دسترس سے باہر تھا۔ ماضی نے اسے ایسے زخم دیے تھے، جن پر بظاہر تو کھَرَنڈ آ چکا تھا مگر وہ اندر سے ناسور بن چکے تھے۔ حال نے ایک بار پھر ماضی کا صفحہ پلٹ کر اس کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے والی لڑکی تھی، مگر زندگی شاید اس سے کوئی اور امتحان لینا چاہتی تھی۔
ماضی میں شاکر خان کی ساری خوشیاں ادینہ کی اذیتوں سے مشروط تھیں اور وہ آج بھی اسی چہرے کے پیچھے چھپے اپنے ہر درد اور اذیت کا مداوا چاہتی تھی۔ شاکر کے ضبط کا بند ٹوٹا تو آنسو خود بخود آنکھوں کے حلقوں سے ابل کر باہر نکل آئے۔ اس نے اپنے جھریوں والے کپکپاتے ہاتھ ادینہ کے سامنے جوڑ دیے، لیکن وہ بے تاثر سی کھڑی ناپسندیدگی کے باوجود ماضی کے ان جھروکوں میں داخل ہو چکی تھی، جن میں وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔
……………..
بیٹے کی خواہش میں پے در پے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ آج بھی حسنہ وہی اذیت سہہ رہی تھی اور پھر وہ چوتھی بیٹی کو جنم دیتے ہی اس جہانِ فانی کو الوداع کہہ گئی۔ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی منحوس کے لقب سے نوازا گیا، کیونکہ ماں کے مرنے کی ذمہ دار صرف یہی بچی تھی۔ موت اور زندگی کا اختیار تو صرف اللّٰہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر انسان کیوں دوسرے انسان کو اس امر کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے؟
وقت اپنی مست خرامی میں گزرتا رہا۔ بڑی دو بہنوں نے باپ کی نفرت کا زیادہ اثر لیا اور چھوٹی بہن سے ہتک آمیز سلوک کرنے لگیں۔ بڑی بہن نے پھر بھی کسی حد تک سمجھوتہ کر لیا تھا۔ وہ بچپن سے ہی دبی دبی اور سہمی ہوئی رہتی۔ پانچ سال کی عمر میں اس نے اسکول جانا شروع کیا تو کچھ وقت سکون کا میسر آنے لگا۔ وہ کتابوں کو اس طرح سینے سے لگا کر رکھتی گویا یہی وہ نیا ہے، جو زندگی کے بیکراں سمندر میں اسے پار لگائیں گی۔ وہ بہت خوشی سے تیار ہو کر اسکول جاتی مگر اپنی خوشی کو کسی پر ظاہر نہ کرتی۔ تلخ حالات، اپنوں کی بیگانگی اور احساسِ تنہائی نے اسے وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا۔ گھر میں جب شاکر خان داخل ہوتا تو ادینہ ایسے چھپتی جیسے اس نے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو۔ وقت کی مخصوص رفتار کے ساتھ وہ بھی بڑی ہو رہی تھی۔
آج اسکول میں ایک شاندار پروگرام کا اہتمام کیا گیا، جس میں ادینہ نے بھی حصہ لیا۔ ڈائس پر مائیک کے سامنے اپنی تمام تر متانت اور اعتماد لیے ادینہ نے اظہارِ خیال کرنا شروع کیا۔
…………….
میرا ان تمام فوت شدہ ماؤں سے ایک سوال ہے۔ جن روحوں کو جنم دیتے ہی مائیں اس جہان کو چھوڑ جاتی ہیں۔ کیا ان کے مرنے کے ذمہ دار ہم ہوتے ہیں۔۔۔؟
کیا قانونِ قدرت وہ بے بس بچہ اپنی دسترس میں لے سکتا ہے، جو بولنے، سننے، سمجھنے، چلنے پھرنے اور خود کھانے پینے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔۔۔؟ تو پھر معاشرے کے لوگوں کا رویہ اتنا نفرت آمیز کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ کیا زندگی اور موت انسانی خواہش پر منحصر ہے۔۔۔؟ میں یہ اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ فوت شدہ اجسام میرے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں، تو اس لیے میرا سوال ان زندہ انسانوں سے ہے، جو آج ہر جذبے سے عاری، محسوسات کے عنصر سے خالی ذہن لیے زندہ لاشیں بنے پھرتے ہیں۔ کیا یہ سب ان کو زندہ کر کے واپس لا سکتے ہیں۔۔۔؟ جن کو مارنے کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرایا جاتا ہے۔۔۔؟
"اس نے اپنے سوالات مکمل کرنے کے بعد سوالیہ نظروں سے حال میں بیٹھے حاضرین کی طرف دیکھا۔ سبھی خاموش تھے۔ حال پر چھائے اس سکوت کو پرنسپل کی تالیوں نے توڑا تو سبھی اٹھ کر ادینہ کو تالیاں بجا بجا کر داد دینے لگے۔ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو ضبط کرتے ہوئے اس نے سب کی طرف دیکھا۔
"تمام تر حسیات سے محروم یہ معاشرہ آپ کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے، بیٹا۔” پرنسپل صاحب نے نظریں جھکا کر رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
……………..
ادینہ گھر میں داخل ہوئی تو ایک ہنگامہ اس کا منتظر تھا۔ باپ کی آنکھوں سے ٹپکتی وحشت کو محسوس کرتے ہوئے ادینہ کانپ سی گئی۔ وہ نظر بچا کر کمرے میں جانے لگی تو شاکر خان ایک جھٹکے سے اٹھا اور ادینہ کو گردن سے دبوچ لیا۔
"کیا کہہ کر آئی ہے تُو سکول میں۔۔۔؟ کیا میں نے اس لیے تجھے سکول جانے کی اجازت دی تھی کہ تُو ہماری بدنامیاں کرتی پھرے؟” وہ غم و غصے کی حالت میں سب کچھ فراموش کر چکا تھا۔ بڑی بہن بچانے کے لیے لپکی۔ چھوٹی دونوں سہمی کھڑی تھیں۔
"ابا، چھوڑ دے اسے، نہیں تو یہ مر جائے گی۔” بڑی بہن نے ادینہ کو اس سنگین گرفت سے آزاد کرانے کی ناکام کوشش کی۔
"میرے لیے تو یہ کب کی مر چکی ہے۔” یہ کہتے ہوئے شاکر خان نے اسے چوٹی سے پکڑا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ آگے بڑھ کر گھر میں داخل ہونے لگی تو دروازہ دھڑاک کی آواز پیدا کر کے اس کے منہ پر بند ہوا۔ وہ روتے ہوئے بہت دیر تک دروازہ پیٹتی رہی، مگر بے سود۔
اداس شام آہستہ آہستہ رات سے ہم آغوش ہوتی شاکر خان کی حویلی کی دہلیز پر اُتر رہی تھی۔ ادینہ روتی رہی۔ اس نے ملتجی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ برستی کہر نے اطراف کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاڑے کی اس ٹھٹھرتی شب میں وہ ننگے پاؤں یونہی بے سرو سامان چل پڑی۔ انجان رستوں پر منزل سے بے خبر۔ وہ کچی آبادی میں لگے خیموں میں آگئی۔ وہ نڈھال سی ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ ایک خانہ بدوش خاتون کی اس پر نظر پڑی، جو زمین پر بیٹھی روٹی ہاتھ پر رکھے پانی کے ساتھ کھا رہی تھی۔ اس نے روٹی ادینہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اسے کھانے کی پیشکش کی، جسے اس نے فوراً قبول کر لیا۔ تین دن کی مسلسل بھوک نے اسے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا تھا۔ وہ کھانے کی طرف لپکی اور کھانا اس خانہ بدوش خاتون کے ہاتھوں سے جھپٹ کر نوالہ پر نوالہ ٹھونسنے لگی۔ خاتون نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے مٹی کے پیالے میں پانی بھر کر اسے دیا۔ وہ پانی بھی ایک ہی سانس میں ختم کر گئی۔
پیٹ کی بھوک ختم ہوئی تو مستقبل کی فکر نے اسے آ لیا۔ وہ اس خاتون سے ملتجی لہجے میں کہنے لگی۔۔۔
"مجھے چند دنوں کے لیے اپنے پاس رکھ لو۔ جیسے ہی میرے میٹرک کے پیپر ختم ہوں گے، میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔” ادینہ کی حالت کے پیشِ نظر اس خاتون نے اسے اپنے پاس رکھنے کی ہامی بھر لی۔ یہ ماحول بھی اس کے لیے سازگار نہیں تھا۔ پیٹ کی بھوک کب کسی کے اندر احساس رہنے دیتی ہے! وہ یہاں سے بھاگی اور بھاگتی چلی گئی۔ بل کھاتی سڑک دور دور تک سنسان پڑی تھی۔ کہیں کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ وہ اپنے قدموں کی آواز سے بھی سہمی ہوئی تھی۔ وہ بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھا کر گری تو بے ہوش ہو گئی۔
وہ جب ہوش میں آئی تو خود کو ایک پُرسکون خواب گاہ میں پایا۔
"میں کہاں ہوں۔۔۔؟” اس نے خودکلامی کرتے ہوئے خود سے سوال کیا۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا تو ایک مکمل لباس زیب تن کیے نفیس اور مدبر سی خاتون لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ سجائے کمرے میں داخل ہوئی۔
"بچیوں کے بارے میں اس معاشرے میں پھیلے ناسور کو میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں، بیٹی۔۔۔ زندگی کے سارے باب تلخیوں سے بھرے ہیں، بس انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ ہمت سے کام لیتے ہیں، شکست ان کے آگے خودبخود ہار مان جاتی ہے۔” اس خاتون کے الفاظ گویا زخموں پر مرہم کا کام کر رہے تھے۔ اس نے اس خاتون کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس نے بھی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا تھا۔ یہاں اس خاتون کے اصرار اور حوصلہ دینے پر پھر سے تعلیم شروع کر لی۔ وہ گزشتہ تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ اس شفیق خاتون کا بہت احترام کرتی۔ وہ پرخلوص رہتی اور اس کی بہت خدمت کرتی۔ اس نے ادینہ کو اپنی بیٹی بنا لیا۔ احساس اور خلوص بھرے اس رشتے کی بھی مدت بہت کم تھی اور یہ خاتون اپنا سارا اثاثہ ادینہ کے نام کر کے اس جہان کو الوداع کہہ گئی۔ حالات نے ایک بار پھر ایسی ٹھوکر لگائی کہ وہ بکھر کر چکنا چور ہو گئی۔
…………..
اس نے میڈیکل مکمل کرنے کے بعد اپنا کلینک بنا لیا۔ مسلسل محنت نے اسے سب کچھ بھلا دیا۔ وہ دکھی انسانیت کی خدمت میں بےانتہا سکون محسوس کرتی اور اسی خدمتِ خلق کو اس نے نصب العین بنا لیا۔ اس کی زندگی یونہی سبک روی سے رواں دواں تھی کہ آج پھر شاکر خان کی صورت میں ایک اور اذیت اس کی منتظر تھی۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوئیں تو سارے مناظر دھندلا گئے۔ وہ آگے بڑھی تو کرسی سے ٹکرا گئی۔ شاکر خان نے آگے بڑھ کر بیٹی کو تھام لیا۔ آنسوؤں کا سیلاب ایسا امڈا کہ بند باندھنا مشکل ہوگیا۔ الفاظ سارے ختم ہو چکے تھے، کربناک داستانوں کا ابھی اختتام نہیں ہوا تھا اور زندگی کے سارے رنگ مانند پڑ گئے تھے۔ یہ کیسی محرومی تھی، جس کے ختم ہونے کی اسے نہ خوشی ہوئی، نہ اپنی زندگی میں آنے والے دکھوں کا ملال تھا۔
"مجھے معاف کر دو، بیٹی۔۔۔۔۔” شاکر نے لرزتی ہوئی آواز سے اور کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو اس کے آگے جوڑتے ہوئے کہا۔
"کیا کر رہے ہیں، بابا۔۔۔۔۔” ادینہ نے اپنے والد کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوم لیا۔
"تیرے بعد مجھے زندگی میں ایک پل بھی سکون میسر نہیں آیا۔ میں نے تجھے بہت ڈھونڈا، لیکن تو مجھے کہیں نہیں ملی۔ میرے ان ہاتھوں کو چومنے کی بجائے اگر تو ان کو کاٹ دے تو مجھے زیادہ سکون ملے گا، کیونکہ انہیں ہاتھوں نے تجھے دربدر کیا تھا۔” یہ کہتے ہوئے اس کی آواز آنسوؤں میں گم ہونے لگی۔
اس نے ایک نظر اپنے والد کے چہرے پر چھائے ملال کو دیکھا اور صرف "بابا” کہہ سکی۔ آج تک تنہائی کا عذاب سہتے ہوئے آج وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر والد کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرہ آنسوؤں سے تر اور آنکھیں معافی کی طلبگار تھیں۔
وہ چاہ کر بھی آج یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ زندگی اکیلے گزارے یا پھر باقی زندگی کے ایام انہیں پتھروں کے حوالے کر دے، جن سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے وہ آج یہاں تک پہنچی تھی۔