"ماہِ ربیع الاول میں گھروں سے زیادہ دلوں کو روشن کرنے کی ضرورت ہے” — اعجازالحق عثمانی

0
90

ربیع الاوّل ایک ایسا عظیم الشان مہینہ ہے ۔ جس میں تاریکی، روشنی میں بدلی۔اور جہالت ، تہذیب میں تبدیل ہوئی۔ ربیع الاول کی اس قدر فضیلت کی وجہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ ہے۔ اسی ماہ یعنی ربیع الاول کی 12 تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی، پیغمبروں کے سردار، جنت کے سردار کے نانا، آقا کائنات، وجہ تخلیق کائنات محمد مصطفیٰ ،احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کائنات فانی میں بھیج کر نہ صرف مسلمانوں یا انسانوں، بلکہ کائنات کی ہر اک مخلوق پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں پر بے شمار احسانات کیے ۔ ہمارے لیے ماں باپ بنائے۔ رشتے بنائے ۔

پھر ان رشتوں میں ہمارے لیے پیار و احساس جیسے جذبات پیدا کیے۔ موسم ، رنگ برنگے پھول اور دل کو چھو لینے والی قدرتی حسن سے مالا مال جگہیں بنائیں۔پھر کھانے کے لیے کیا کیا نہ بنایا ۔یہ سب بڑے احسانات ہیں۔ مگر ان سب احسانوں سے اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہمارے درمیان اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجنا ہے۔اس احسان کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo (سورۃ آل عمران 3 : 164)

ترجمہ: "بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے”۔

بلاشبہ عرب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے گمراہی اور جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چاروں جانب گناہوں اور جہالت کا اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ اچھائی کا ہونا ناممکن سا ہوگیا تھا۔ باپ ، بیٹے کا دشمن تھا۔ اور بیٹیوں کو باپ زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ رشتوں کی تمیز ختم اور خون سفید ہوچکے تھے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے آکر ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کے قابل بنایا۔ جہالت کو تہذیب اور اندھیرے کو روشنی میں ایسے بدلا کہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ۔ بیوی کو باندھی سمجھنے والے ، اسے نصف ایمان کا درجہ دینے لگے ۔

بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی بجائے انھیں رحمت سمجھا جانے لگا۔یہ سب کیوں نہ ہوتا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار اور اسوہ اس قدر کامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانی دشمن بھی آپ کی صداقت اور ایمانتداری کو سلام کرتے تھے ۔

سلام اے آمنہ کے لال ‘ اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات ‘ فخر نوعِ انسانی

سلام! اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام! اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

ربیع الاول کی آمد سے قبل ہی مسلمان اس کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ربیع الاول کے آغاز سے ہی گھروں، دفاتر اور مساجد میں چراغ کیا جاتا ہے ۔گھر ،گھر ،گلی ،گلی روشن نظر آتی ہے ۔ مگر ربیع الاول میں جس ہستی کی آمد پر ہم خوشیاں مناتے ہیں ۔ کیا اس ہستی کا پیغام ہمیں یاد ہے ؟۔ گھر تو روشن کر لیتے ہیں ۔ مگر دلوں میں نفرتیں، کدورتیں اور بغص ہی رکھتے ہیں ۔ ماہ ربیع الاول میں گھروں سے زیادہ دلوں کو روشن کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم جہالت کے اندھیروں میں پھر سے ڈوبتے جارہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے ماہ ربیع الاول کے پیغام کو فراموش کر کے ، اس ماہِ مبارک میں صرف گھر روشن اور جھنڈیاں لگانے شروع کر دی ہیں۔

بیشتر لوگ اب بیٹیوں کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھنے لگے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی ایسے کیسز سامنے آتے ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی ۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کر دیا۔ یہ سارے واقعات رونما نہ ہوتے ۔اگر ہم نے ربیع الاول اور اس ماہِ مبارک میں پیدا ہونے والی ہستی کے پیغام کو روشن کیا ہوتا۔ اگر ہم نے اپنے گھروں کو روشن کرنے کی بجائے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو روشن کیا ہوتا تو آج کا یہ معاشرہ بہت بہتر ہوتا۔

Leave a reply