شمسی توانائی سے چلنے والے ماحول دوست ”شمسی چولہے“

0
9

گیس کی قلت اور مہنگائی کا متبادل افغانستان اور افریقی ممالک میں شمسی توانائی سے چلنے والے ”شمسی چولہے“ متعارف کرائے گئے ہیں-

باغی ٹی وی : دنیا بھر میں مسلسل کاٹے جارہے جنگلات اور کم ہوتے گیس کے ذخائر کے باعث ایندھن کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کیلئے اٹھایا گیا قدم اب دوڑ کی شکل اختیار کرگیا ہےلکڑی کو بطورایندھن استعمال کرنا اور جلانا ہی بنیادی طورپرجنگلات کٹنےاورگلوبل وارمنگ کا ایک سبب ہے اس صورت حال میں شمسی توانائی ایک حل ہے جس کی مدد سے ایندھن کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔

ساس نے حاملہ بہو کو زندہ جلا دیا

ان چولہوں یا کُکرز میں سورج کی روشنی کو ایک مرکزی نقطہ پر مرکوز کرنے کے لیے آئینے کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ توانائی کی ایک انتہائی سستی شکل ہے اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح کھانا بنانے کا عمل انتہائی سست ہوجائے گا توآپ غلط سوچ رہے ہیں یہ کُکرز بالکل اسی طرح کھانا بناتے ہیں جس طرح آگ والے چولہوں پر بنتا ہے۔

لکڑی جلائے جانے پر دھواں خارج کرتی ہے، لیکن جب سولر ککر استعمال کیا جائے تو اس مضر صحت دھوئیں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو سانس کے ساتھ اندر جاتا ہے اوربعض اوقات کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بن جاتا ہےفغانستان اور بعض افریقی ممالک میں ان چولہوں کا استعمال جاری ہے، اور یہ پاکستان کے ریگستانی یا دیہی میں بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں یہ چولہے کمرشل سطح پر بھی تیار کئے جاتے ہیں-

قبول نہیں کرتے کہ سعودی عرب کو ہمارا دشمن سمجھا جائے،ایران

کابل کے غلام عباس سولر تندور اور چولہے بناتے ہیں انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے غلام عباس بے بتایا کہ ’یہ چولہا پہلی بار غزنی میں بنتا ہوا میں نے دیکھا تھا، پھر کئی جگہ اور بنتا دیکھا، چونکہ یہی میرا پیشہ تھا تو پہلے میں نے 2 چولہے بنائے پھر میرے دوستوں اور ہمسایوں نے حوصلہ افزائی کی ،لوگ میرے بنائے ہوئے چھوٹے سائز کے سولر چولہے بطور خاص پسند کرتے ہیں اگرچہ کارکردگی بڑے چولہوں کی بہتر ہوتی ہے، مثلاً چار لیٹر والےجو 18 سے 20 منٹ میں پانی کو ابالتے ہیں۔

اسلام آباد: دفعہ 144کی خلاف ورزی پر تحریک انصاف کے خلاف مقدمہ درج

غلام عباس کا کہناتھا کہ ہمارے پاس بجٹ کی کمی ہے اس لیے اس کاروبار کو وسعت نہیں دے سکتےمیرا ارادہ ہےاس مفید کام کو انٹرنیشنل لیول تک لے جاؤں، حالانکہ فی الوقت لوگوں کےمطالبے کے باوجود میں افغانستان کےدوسرےصوبوں تک بھی اپنے کام کو وسعت نہیں دے پایا۔ لوگ میرے چولہوں کو یہاں کابل،خوست وغیرہ میں خرید کر اپنےساتھ دوسرے صوبوں کو لے جاتے ہیں ابھی مجھے پختون بھائی کی دبئی سے کالآئیآج کل مجھے دبئی سے کالز زہادہ آ رہی ہیں-

تنہائی سگریٹ نوشی سےزیادہ خطرناک،جبکہ قبل از وقت موت کےخطرےکو30 فیصد تک بڑھا دیتی ہے

برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے غلام عباس نے بتایا کہ اس کا کچھ سامان تو ہمارے ملک کا بنا ہوا ہے جبکہ لوہے کی پلیٹس پاکستان، چین اور روس سے آتی ہیں۔ اس کا شیشہ بھی چین اور ایران سے آتا ہے یہ بازارمیں خام مواد پرانحصار کرتا ہےجبکہ بازار میں کسی بھی چیزکی مقررقیمت نہیں تو ان چولہوں کی قیمتیں بھی مقرر نہیں۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے افغان اور چینی وزرائے خارجہ کی ملاقات

Leave a reply