میں قربانی کیوں کروں؟ تحریر: ڈاکٹر محمد عمیر اسلم

ذی الحج کا چاند نظر آتے ہی جہاں لوگ سنت ابراہیمی کو ادا کرنے کے لیے قُربانی کی تیاریوں کا آغاز کر دیتے ہیں وہیں کچھ مذہب بیزار قسم کے لوگ اس فریضے سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں، یہ انسانیت کے نام نہاد علمبردار انتہائی جذباتی انداز میں پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ حج و قربانی پر اربوں روپے ضائع کرنے کی بجائے غریبوں کی مدد کی جائے۔

یہ نام نہاد سکالرز سوشل میڈیا پر طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں جن میں سے چند ایک آپکی خدمت میں حاضر ہیں۔
ایک بھائی صاحب کی پوسٹ دیکھی، جس میں وہ فرما رہے تھے کہ اس بار وہ قربانی نہیں کریں گے بلکہ اُنہی پیسوں سے اُنہوں نے ایک واٹر کولر لگوا دیا ہے۔

کوئی یہ رونا رو رہا تھا کہ غریب ہمسائے کی لڑکی کی شادی کے لئے مدد نہ دینے والے حاجی صاحب دو لاکھ کا بکرا لے آئے ہیں۔ اور ساتھ یہ عزم بھی کیا کہ وہ حاجی صاحب کی طرح قُربانی نہیں کریں گے بلکہ کسی غریب لڑکی کی شادی کروائیں گے۔

ایک اور صاحب نے لکھا کہ اس بار وہ عید پر قربانی نہیں کریں گے، کیوں کہ انہیں جانور ذبح ہوتے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، مزید کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اتنی خوبصورت تخلیق کو کیوں مارا جاتا ہے۔

ایک بھائی نے لکھا کہ مجھے کافر کہہ لو لیکن مجھے یہ نہیں پسند کہ 72 گھنٹوں میں کئی لاکھ پیارے پیارے اور معصوم جانوروں کا سرِ عام اتنے بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہو۔ لیکن ساتھ اس بات پر بھی افسردہ تھے کہ اب کُچھ دن کے لیے انہیں سبزیوں پر گزارہ کرنا پڑے گا۔

ایک مشہور شخصیت نے پوسٹ کی کہ لوگوں کو عید الاضحی پر لاکھوں جانوروں کو قربان / ذبح کرنے کی بجائے اپنے آئی فون توڑ (قربان کر) دینے چاہیے۔ مزید یہ بھی کہا کہ یہ افسوس ناک ہے کہ ہر سال کروڑوں جانوروں کو قربانی کے نام پر ذبح کر دیا جاتا ہے اور وہ بھی بچوں کے سامنے۔

جانوروں کے حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اُسے عید الاضحی پر کروڑوں جانوروں کے قتلِ عام پر تشویش ہے، قُربانی کے نام پر بڑے پیمانے پر جانوروں کی نسل کشی کی جاتی ہے، اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جانوروں کی باقیات سے نہ صرف ماحول آلودہ ہوتا ہے بلکہ قربانی کے دوران پانی کے استعمال سے پانی بھی ضائع ہوتا ہے۔

ایک شخص نے لکھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لیڈر بن چُکے ہیں جو قُربانی کی حمایت کرتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ بجائے قربانی کرنے کے وہی رقم کسی غریب کو عطیہ کر دیں، اور ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمیں انسانیت کے نام پر پُر امن رہنا چاہئے، اور قربانی کے نام پر نمود و نمائش کی بجائے دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔

بدقسمتی سے یہ چند بیان کیے گئے نظریات کچھ نام نہاد دیسی لبرل مسلمانوں کے ہیں۔ ایک طرف تو یہ لوگ آزادئ اظہار رائے کا پرچار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ دوسروں کے عقائد پر تنقید کرتے ہیں۔ اگر کوئی قربانی نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے لیکن اُسے دین کا مذاق بنانے یا اپنے عقائد اور مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے دوسروں پر تنقید کا کوئی حق نہیں۔

سوال یہ ہے کہ انسانیت کے ان ہمدردوں کو غریبوں کی مدد کے لئے صرف حج و قربانی ہی کیوں نظر آتی ہے؟

اپنی بڑی بڑی گاڑیاں، 24 گھنٹے اے سی چلتے کمرے، محل جیسے پرتعیش گھر، ہر رات آباد ہوتے مہنگے ترین ہوٹل، ہزاروں روپوں کا میک اپ، لاکھوں i جیولری اور کاسمیٹیکس، لاکھوں کی مالیت کے موبائل فون کیوں نظر نہیں آتے؟ ان نام نہاد لوگوں کے لیے یہ سب جائز ہے، لیکن سال بھر میں ایک بار قربانی کرنا غلط؟

قربانی ایک اہم مالی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس عمل کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہےبارگاہ الہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے۔

سورت الحج آیت نمبر 34 میں اللّٰہ نے فرمایا ہے کہ (ترجمہ !) "اور ہم نے ہر اُمت کیلئے قربانی اس غرض کیلئے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللّٰہ نے اُنہیں عطا فرمائے ہیں”۔

قربانی کی ایک عظیم الشان صورت اللّٰہ تعالی نے امت محمدیہ ﷺ کو عیدالاضحٰی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے، عید الاضحی پر ایک خاص جانور کو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور تقرب کی نیت سے سے ذبح کیا جاتا ہے۔

دین درحقیقت اتباع کا نام ہے اور اصل مقصد اللّٰہ تعالی کے حکم کی بجا آوری ہے، قرآن مجید میں سورت الحج کی آیت نمبر 37 میں بیان کیا گیا ہے کہ ترجمہ ! "اللّٰہ کو ہرگز نہ اُن کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اُسے تمہاری طرف سے تقوی پہنچے گا۔اسی لئے اس نے اُنہیں تمہارے لئے مسخر کر دیا،تاکہ تم اُس پر اللّٰہ کی بڑائی بیان کرو ،کہ اُس نےتمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والے کو خوشخبری سنا دیجیئے”۔

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو وسعت ہو (صاحب نصاب ہو) اس کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (سنن ابن ماجہ )

جو لوگ مالی وسعت یعنی قربانی کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی قربانی ادا نہیں کرتے وہ آنکھیں کھولیں!اور اپنے ایمان کی خیر منائیں، عیدگاہیں اور مساجد اللّٰہ تعالی کی محبوب جگہیں ہیں، جہاں جمع ہونے والوں پر بارگاہ الہی سے رحمت کی برستی ہے، یہاں کی حاضری سے کسی بدنصیب کو ہی روکا جا سکتا ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے موٹے تازے سینگوں والے سیاہ و سفید رنگت والے دو خصی مینڈے خریدتے، اُن میں سے ایک اپنے اُن امتیوں کیطرف سے قربان کرتے جنھوں نے اللّٰہ کی توحید اور آپ کی تبلیغ کی گواہی دی،اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل وعیال کیطرف سے قربان کرتے ۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کیا کرو اور خوش دلی سے کیا کرو کیوں کہ جب مسلمان اپنی قربانی کا رُخ قبلے کی طرف کرتا ہے تو اس کا خون،گوبر اور اُون قیامت کے دن میزان میں نیکیوں کی صورت میں حاضر کیے جائیں گے۔

حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہارے قربانی کے جانور کے)ہر بال کےبدلےمیں ایک نیکی ملے گی ۔ صحابہؓ نے پھر عرض کیا یارسول اللہﷺ !(جن جانوروں کے بدن پر اُون ہے اُس) اُون کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اُون کے ہر بال کے عوض میں بھی نیکی ملے گی۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ یہاں ہر دوسرا بندہ دین اور مذہبی معاملات پر بغیر کسی تحقیق رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے۔ آج پاکستانی معاشرے کو ایسے خود کو عقل کل سمجھنے والے نام نہاد سکالرز کا سامنا ہے جو مغربی سوچ سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ یہ ہر چیز کو سیکولرازم کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہیں مذہب سے متعلق سب کچھ ہی برا لگتا ہے، انکا حجاب میں دم گھٹتا ہے، ہر داڑھی والا دہشت گرد نظر آتا ہے، مدارس تمام مسائل کی جڑ لگتے ہیں اور قربانی کے وقت انہیں غریب غربا یاد آ جاتے ہیں۔

ہر سال شادیوں کے نام پر لاکھوں کا خرچہ کرتے وقت ان لوگوں کو غریب کی بیٹی یاد نہیں آتی۔ لاکھوں روپے مالیت کے موبائیل سے غریبوں سے ہمدردی کا ڈھنڈورا پیٹتے انہیں واٹر کولر لگوانا اچھا نہیں لگتا۔ ان کے میک اپ، پرفیوم اور کاسمیٹکس کے لاکھوں کے خرچے سے کئی گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں، لیکن اس وقت غریب کا احساس ضروری نہیں ہوتا۔

عید پر انہیں غریب کی بیٹی کی شادی کی فکر ضرور ستاتی ہے لیکن سارا سال اِن کے بوتیک سے کوئی غریب اپنی بیٹی کی شادی کا جوڑا نہیں خرید سکتا۔ عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر انہیں ظلم ضرور یاد آتا ہے لیکن سارا سال جب یہ گوشت کھاتے ہیں اُس وقت یہ ظلم نہیں ہوتا۔ انہیں قربانی کے وقت پانی کا استعمال ضیاع لگتا ہے لیکن سال بھر اِنکے سوئمنگ پولز میں پانی کا استعمال نظر نہیں آتا، اور انکی مہنگی گاڑیاں ہوا سے دھوئی جاتی ہیں۔

یہ لوگ فضول خرچی روکنے کے لئے سمارٹ فونز کی خریدو وفروخت پر پابندی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ بیوٹی پارلرز اور لاکھوں کا ایک ایک جوڑا فروخت کرنیوالے بوتیکوں پر اخراجات کی بجائے غریب بچیوں کے گھر بسانے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ پارٹیوں پر لاکھوں خرچ کرنے کی بجائے غریبوں کی مدد کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟

قربانی کو متنازعہ بنانے والے یہ سیکولر زکوۃ کی ادائیگی کیوں نہیں شروع کرتے؟ دراصل مسئلہ غریبوں کی حمایت کا نہیں ہے، بلکہ ان کو تکلیف صرف سنت نبویﷺ پر عمل کی ہے۔ یہ لوگ سنت نبویﷺ کو بزور طاقت تو نہیں روک سکتے اور نہ ہی براہ راست تنقید کر سکتے ہیں اس لیے یہ لوگ ایک جذباتی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بیچارے مغرب کی تقلید میں ان سے بھی بڑھ کر روشن خیال بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

عیدِ قربان نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ ایک بڑی معاشی اور فلاحی سرگرمی کا دن بھی ہے۔ عید الاضحٰی کے لیے قربانی کے جانوروں کو بڑے پیمانے پر ملک کے دیہی علاقوں سے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اربوں روپے کا سرمایہ شہروں سے دیہی اور زرعی معاشرے میں منتقل ہوجاتا ہے۔

ہر سال عید الاضحیٰ پر 200 سے 300 ارب روپے تک کی رقم ہر شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جانوروں کو منڈیوں اور گھروں میں پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے استعمال سے لے کر انہیں چارے کی فراہمی اور قصابوں تک، لاکھوں لوگ اس معاشی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔

مُلک میں چمڑے کی کل ضروریات کا تقریباً 40 فیصد قربانی کے تین دنوں میں پورا ہو جاتا ہے۔عیدِ قرباں پر بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر پاکستانی اپنی قربانی کی رقومات پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ قربانی کا فائدہ ملک کے پسماندہ طبقات کو ہو۔

دیکھا جائے تو قربانی دراصل غریبوں کے لئے ہی روزگار پیدا کرتی ہے، بُہت سے لوگ جو گوشت افورڈ نہیں کر سکتے اُنہیں ہر سال عید الاضحی پر کھانے کے لیے گوشت ضرور ملتا ہے، قُربانی کی کھالوں سے ایسے فلاحی ادارے چلتے ہیں جو غریبوں کے بچوں کو پڑھاتے ہیں یا پھر ہسپتالوں میں غریبوں کا مفت علاج کرواتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی مسلمانانِ عالم کو سنت ابراھیمی ( علیہ السلام) اور سنت رسولﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور قربانی کے مبارک عمل کو بارگاہ جلیلہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔

Leave a reply