زندگی میں آپکا سب سے بڑا حریف آپکی اپنی ذات ہے کہ جس کو جیتنا ۔یا صرف اس پر قابو پالینا بھی آپکو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر یہ حریف عروج نہ بھی دے پائے۔ تو کم از کم آپکو آپکے حالات پر خوش رکھنے میں ہمہ وقت مددگار رہے گا۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ حریف ہر دفعہ آپکو نقصان ہی پہنچائے۔بلکہ کبھی کبھار اکثر اوقات یہ حریف آپکو اپکے ساتھ آپکے مطابق کھڑا محسوس ہو گا اور یہ آپکو بلندیوں تک بھی پہنچا دے گا۔ مگر ہمیشہ کیلئے ساتھ کبھی نہی دے گا۔
بڑی بڑی نعمتوں کے بعد بھی چاہے اپ پوری دنیا پر راج ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ڈپریشن لالچ ناشکری احساس کمتری چڑچڑاپن جیسے ذہنی امراض سے واسطہ رہے گا۔
اب اس حریفانہ ذات سے مراد کیا ہے۔؟؟؟
آپکی تمام ذہنی دلی جسمانی خواہشات۔ اور انکے مثبت منفی افعال ۔جسے پوری دنیا میں صرف آپ جانتے ہوں۔اور اسکے معاون خاص مددگار اسکی اصلیت ۔راز نقص خوبیوں کمزوریوں کو بھی صرف آپ جانتے ہوں۔
اسے عام طور پر انسانی حریف کہا جاتا ہے۔
اب اس پر کنٹرول کیسے کیا جائے؟؟؟
قارئین کرام یاد رکھئیے۔
اگر یہ سب چیزیں خدا نے ہمارے ساتھ جوڑی ہیں تو انکو کنٹرول رکھنے کیلئے مضبوط تر لگام/تالا
بھی اسلام ایمان کی صورت میں نازل فرمایا۔اور ساتھ ساتھ احکامات فرامین ہدایات بھی بھیج دیں کہ آپ لوگوں نے اپنے آپ کو استعمال کیسے کرنا ہے۔
جیسے ایک معروف کمپنی اپنی پراڈکٹس پر ہدایت نامہ لکھ کر بھیجتی ہے۔اور انھی ہدایات کے مطابق استعمال کرنے کی شرائط پر ایک مختصر وقت کی گارنٹی دیتی ہے۔
تو جس خدا نے ہمیں بنایا اسی نے ہمارے لئیے بعینیہ ہمارے مطابق طور طریقہ بنایا تاکہ ہم لوگ ان ہدایات پر عمل پیرا ہو کر اچھی طرح جی سکیں۔اور اگر ہم نہیں عمل کریں گے تو خداوندی گارنٹی ختم۔
پھر فان معیشۃ ضنکا جیسی پیشنگوئی ہے
جب تک ہم اسلام ایمان فرامین کو ترویج دیتے سامنے رکھتے ہوئے چلیں گے تو اپکی ذات کیا آپ پوری دنیا پر اپنا قابو دیکھیں گے۔
نہیں تو وہی حال ہو گا جو اب کی صورتحال ہے۔
باہر ممالک کو دیکھا جائے تو پورپی موٹیوشنل گروپس ہمارے ہی قواعد کو اپنا پھیلا کر دنیا میں ترقی کر رہے۔اور انکا کوئ بھی ایسا مجرب قاعدہ نہیں جو انسان کو انسان بنائے۔اور اسکا تذکرہ اسلام میں نہ ملتا ہو۔
ہماری سب سے بڑی کمبختی قوانین خداوندی کو پس پشت ڈالنا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا میں کامیاب مطمئن زندگی جیئیں۔ شاعر مشرق نے نے اس شعر سے قصہ محتصر کر دیا کہ
خودی میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا