
گزشتہ دنوں پاکستان کے شہر رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں ایک واقعہ پیش آیا۔کچھ لوگوں پر مشتعمل ایک گروہ مندر پر حملہ آور ہوتا ہے۔مندر میں توڑ پھوڑ کی گئی، آگ لگائی گئی اور مورتیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔اس واقعہ کا نوٹس فوری طور پر وزیراعظم عمران خان اور سپریم کوٹ آف پاکستان نے لیا۔ ملک میں عدم برداشت کا بڑھ جانا اور اسطرح کے واقعات قابل تشویش ہیں۔
مندر پر حملہ آخر کیوں کیا گیا؟اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟اس کے بارے میں دو الگ الگ مواقف سامنے آئے ہیں ۔ایک موقف "ایف آی آر”میں درج ہے جبکہ دوسرا موقف ہندو کمیونٹی کا ہے۔
” ایف آی آر ” بھونگ شریف میں ایک مسجد کے نائب امام نے درج کروائی تھی۔” ایف آی آر ” میں نائب امام کا کہنا ہے کہ مسجد سے منسلک ایک مدرسہ ہے میں اس مدرسے سے درس نظامی کا کورس بھی کر رہا ہوں اور مسجد کا نائب امام بھی ہوں۔24 جولائی 2021 کو باوقت صبح دس بجے میں نے مدرسہ کی لائبریری میں ایک لڑکے کو دیکھا۔جو کہ مدرسہ میں لائبریری کی قالین پر پیشاب کر رہا تھا۔لڑکا لائبریری کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر داخل ہوا تھا ، میں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ بھاگ گیا۔میرے شور کرنے پر کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے۔میں باقی گواہان کے ساتھ اسے پکڑنے کے لیے نکلا لیکن اس کا پتہ نہیں چلا، مایوس ہو کر آیا ہوں تحریری درخواست دے رہا ہو اس پر کاروائی کی جائے۔
پولیس نے اس لڑکے کو گرفتار کر لیا۔ چونکہ اس لڑکے کی عمر 8 سے 10 سال تھی اس لیے اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
جب کہ دوسرا موقف جو کہ ہندو کمیونٹی کا ہے اس میں ہندوؤں کا یہ کہنا ہے کہ ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر 8 سال ہے اور اس کا نام بھویش کمار ہے وہ مسجد سے منسلک مدرسہ کی لائبریری میں ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے داخل ہو گیا پھر جب مسجد کے نائب امام حافظ ابراہیم صاحب نے بچے کو دیکھا تو اس پر غصہ ہوئے کہ یہاں پر کیوں آئے ہو تو اس کے ردِعمل میں خوف کی وجہ سے بچے کا پیشاب نکل گیا۔
یہ تو تھے دو الگ الگ مواقف۔ بھونگ شریف میں ہندو بڑی تعداد میں رہتے ہیں اور ہندو دو طبقات میں تقسیم ہیں۔ایک طبقہ ہندو راجپوت کا ہے جو کہ سونے کا کاروبار کرتے ہیں جب کہ دوسرا طبقہ غریب ہندوؤں کا ہے۔یہ بچہ غریب کمیونٹی کے ہندو میں سے تھا ۔
اس علاقے میں آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہندو مسلمانوں میں کبھی لڑائی ہوئی ہو۔ا س علاقے کاایک تاجرعبدالرازاق نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی کہ "آج کے بعد جو ہندو مسلمانوں کے برتنوں میں کھا تا پیتا دیکھا گیا اس کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔خاص کر بھونگ شریف میں” ہندوؤں اور مقامی لوگوں نے اس کے خلاف تھانہ میں درخواست دی کہ یہ علاقے میں بدامنی پھیلا رہا ہے اس کے بعد پولیس نے اس تاجر کو گرفتار کر لیا۔ پیپلز پارٹی کے ایک "ایم پی اے” جو رحیم یار خاں کے علاقے بھونگ شریف کے موجودہ "ایم پی اے” ہیں، انہوں نے اُس تاجر کو سفارش کر کے چھوڑوا لیا۔
اس تاجر کے چھوٹنے کے بعد لوگوں کی ایک بہت زیادہ تعداد بھونگ شریف میں داخل ہوجاتی ہے۔جن لوگوں نے مندر پر حملہ کیا وہ بھونگ کے علاقے کے رہنے والے نہیں ہیں ۔ حملہ کرنے والے لوگ رحیم یار خان کے ساتھ کچے کے علاقے سے آئے تھے۔یہ ابھی تک پتہ نہ چل سکا کہ آخر انہیں کون اور کیا کہہ کر لیا تھا۔مندرپر توڑپھوڑ کرنے کے بعد اس گروہ کے لوگ کسی بات پہ آپس میں بھی لڑ پڑے اور پھر جا کر ہائی وے کوتین گھنٹے تک بلاک رکھا۔
ان گھنٹوں میں جب وہ بھونگ شریف آ رہے تھے پولیس نہیں آئی،جب مندر توڑا پولیس نہیں آئی،جب وہ آپس میں لڑ رہے تھے پولیس نہیں آئی اور جب انہوں نے ہائی وے کو تین گھنٹوں تک بلاک کیے رکھا تب بھی پولیس نہیں آئی۔پولیس ان کو نہیں روک سکی۔ جب بات کُھل کر سامنے آئی تو وزیراعظم عمران خان نے اس کا نوٹس لیا۔ چیف جسٹس نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لے لیا، ملک بھر کے لوگوں نے اس واقعہ کی مزاحمت کی اور کہا کہ اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے۔
اب بھارت اس واقعہ کا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ بھارت کی منسٹری آف ایکسٹرنل کے سپوکس پرسن نے ٹویٹ کیا ہے”خبریں آ رہی ہیں کہ ایک پرتشدد ہجوم نےپاکستان کے علاقے رحیم یار خان میں مندر پر حملہ کیا اور بتوں کو توڑ کر آگ لگا دی ہےاور اَس پاس کے ہندو کمیونٹی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
جب کہ ایسا نہیں ہوا وہ ایک مندر ہی ہے جہاں پر یہ سارا نقصان ہوا ہے۔ظاہر ہے انڈیا اس سے فائدہ اُٹھائے گا،اور یہ وہی انڈیا ہے جہاں 500 مساجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو انڈیا کےعلاقے گجرات میں تباہ کر دیا گیااور ان کی گورنمنٹ اس سب میں شامل ہے۔بھارت پہلے اس کا جواب دے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا ، اقلیتوں کے ساتھ کیا کیا، انہوں نے عیسائیوں ،مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ کیاکیا۔دنیا میں اگر اقلیتوں کے لیے سب سے بُری جگہ ہے تووہ بھارت ہے۔
کچھ لوگ افلاطون بھی بنے ہوئے ہیں کہ توڑ دینے چاہیے مندر،ہندوؤں کو نکال دینا چاہیے تو ان لوگوں کومیں بتانا چاہوں گا کہ ہمارا مذہب اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ہمارے نبی محمدﷺ کے اس بارے میں کیا احکامات ہیں ۔
ایک ہدیث ہے جو مختلف صحابہ کرام سے روایت ہے ، آپ ﷺ نے اہل نجران سے ایک معاہدہ کیا تھا اور اس میں ایک تحریری فرمان جاری کیا تھا۔
(فرمان کا ترجمہ) ۔۔۔
"اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول محمدﷺ ، اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کےلیے اُن کے خون،ان کی جانوں،ان کے مذہب ،ان کی زمینوں ، ان کے اموال، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجودہ اور غیر موجودہ افراد،ان کے مویشیوں اور قافلوں اور اُن کے استھان (مذہبی ٹھکانے) وغیرہ کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔ جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔نہ کسی پادری کو،نہ کسی راہب کو ،نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کے خادم کو، خواہ اس کا عہدہ معمولی ہو یا بڑا ، اس سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ اور ان کو کوئی خوف و خطرنہ ہوگا۔”
اس فرمان کے بعد میری،آپ کی ،ملک کی یا کسی بھی مسلمان کی کیا اوقات ہے کہ وہ غیر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں۔
اقلیتوں کے جان و مال کے علاوہ اُن کی مذہبی آزادی بھی ریاستِ پاکستان اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس واقعہ پر ہر ذی شعور پاکستانی اور مسلمان کو اس واقعہ پر دکھ ہوناچاہیے، یہ بہت غلط ہوا ہے۔اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔حملہ آوروں نے یہ کر کے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی ہے،اس کی تفتیش ہونی چاہیے اور جو بھی اس میں ملوث تھا ہر ایک کو سزا ملنی چاہیے۔
twitter.com/iamAsadLal