مقبول بٹ شہید کا نام تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ایک ایسے مجاہد تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے وقف کر دی اور بالآخر اسی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ ان کی شہادت محض ایک واقعہ نہیں بلکہ تحریکِ آزادی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ 11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں ان کی پھانسی نے کشمیر کے عوام میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا، جو آج بھی جاری ہے۔مقبول بٹ 18 فروری 1938 کو وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ترہگام گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک عام کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی سوچ غیر معمولی تھی۔ وہ بچپن سے ہی غلامی اور ناانصافی کے خلاف حساس تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے سری نگر اور پھر پاکستان کا رخ کیا، جہاں انہوں نے صحافت اور سیاست میں اپنی فکری نشوونما جاری رکھی۔
ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1958 میں ہوا جب وہ کشمیریوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہوئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ محض ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ یہ لاکھوں کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ان کی سوچ واضح تھی: کشمیر کو ایک خودمختار، آزاد ریاست ہونا چاہیے جو کسی بھی بیرونی تسلط سے پاک ہو۔
1965 میں مقبول بٹ نے "جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ” (JKLF) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد کشمیر کی مکمل آزادی تھا۔ یہ تنظیم کشمیری قوم پرستی اور آزادی کے نظریے پر قائم کی گئی تھی۔ مقبول بٹ نے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ طاقت کے بغیر کوئی قابض حکومت آزادی نہیں دیتی۔انہوں نے مسلح جدوجہد کے ذریعے بھارتی تسلط کے خلاف آواز بلند کی۔ 1966 میں وہ ایک اہم مشن کے دوران گرفتار ہوئے اور ان پر بغاوت، قتل اور غیر قانونی سرحد پار کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ بھارتی حکومت نے انہیں سزائے موت سنائی، لیکن وہ 1968 میں جیل سے فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے، جہاں انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔پاکستان میں مقبول بٹ کو ایک اور چیلنج درپیش تھا۔ یہاں پر کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر موجود تھے۔ کچھ لوگ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے، جبکہ مقبول بٹ کشمیر کی مکمل خودمختاری پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے خیالات کو ہر جگہ مکمل حمایت نہ مل سکی۔ تاہم، انہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور مسلسل اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔1976 میں وہ دوبارہ بھارت گئے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بھارتی حکومت نے انہیں دوبارہ سزائے موت سنائی، اور طویل عرصے تک قید میں رکھا گیا۔ اس دوران ان کے نظریات اور مقاصد مزید واضح ہو گئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر انہیں شہید کر دیا جائے تو ان کی قربانی کشمیری عوام کے لیے ایک نئی تحریک کو جنم دے گی۔
11 فروری 1984 کو، بغیر کسی قانونی ضابطے کی تکمیل کے، بھارتی حکومت نے مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی۔ ان کی لاش کو بھی کشمیری عوام کے حوالے نہیں کیا گیا، بلکہ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پورے کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔مقبول بٹ کی شہادت نے کشمیری نوجوانوں میں آزادی کی ایک نئی روح پھونکی۔ ان کی شہادت کے بعد کشمیر میں مسلح جدوجہد مزید شدت اختیار کر گئی، اور یہ تحریک آج بھی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔مقبول بٹ کی قربانی نے کشمیر کی جدوجہد کو مزید مضبوط کر دیا۔ آج بھی کشمیری عوام ہر سال 11 فروری کو "یومِ شہادت” کے طور پر مناتے ہیں۔ ان کا فلسفہ سادہ تھا: آزادی کی جدوجہد میں اگر جان بھی دینی پڑے تو یہ ایک معمولی قربانی ہے۔کشمیریوں کے لیے مقبول بٹ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ وہ نظریاتی، فکری اور عملی جدوجہد کی علامت ہیں۔ ان کے نظریات آج بھی کشمیری نوجوانوں کو متحرک کرتے ہیں اور آزادی کے حصول کی راہ میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔مقبول بٹ کی شہادت کے بعد بھی عالمی برادری نے کشمیر کے مسئلے پر وہ توجہ نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ بھارت نے ہمیشہ اس معاملے کو "داخلی مسئلہ” قرار دے کر دبانے کی کوشش کی، جبکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عالمی طاقتیں انصاف کے اصولوں پر قائم ہیں یا صرف اپنے مفادات کے تابع ہیں؟ مقبول بٹ کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا اور آج بھی ان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔مقبول بٹ کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ وہ ایک ایسا بیج بو گئے جو آج تناور درخت بن چکا ہے۔ کشمیر کے بچے، بوڑھے، جوان سبھی ان کی جدوجہد کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ ان کے نظریات آج بھی زندہ ہیں اور کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کا عکس نظر آتا ہے۔
کیا کشمیری عوام کو وہ حق ملے گا جس کے لیے مقبول بٹ نے جان دی؟ کیا عالمی برادری انصاف کرے گی؟ یہ سوال آج بھی موجود ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک کشمیری عوام میں مقبول بٹ جیسے جذبے موجود ہیں، آزادی کی یہ شمع کبھی نہیں بجھے گی۔