ماروی: صحرائے تھر کی بہادر بیٹی
تحریر :ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
صحرائے تھر کی سنہری ریتوں میں بسی ایک ایسی کہانی گونجتی ہے جو صدیوں سے سندھ کے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یہ داستان ہے ماروی کی، تھرپارکر کے گاؤں بھالوا کی ایک سادہ، باوقار اور نڈر لڑکی کی، جس نے جبر، طاقت اور لالچ کے سامنے نہ جھکتے ہوئے اپنی مٹی سے محبت، عزتِ نفس اور وفاداری کی لازوال مثال قائم کی۔ ماروی کی یہ لوک داستان صرف ایک روایت نہیں بلکہ سندھ کی تہذیب، مزاحمت اور ثقافتی شناخت کا آئینہ ہے، جو ہر نسل کو اپنی جڑوں سے جڑے رہنے اور حق کے لیے ڈٹ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔

ماروی کی کہانی تھرپارکر کے صحرائی خطے سے جڑی ہے، جو اپنی سادگی، روایات اور مزاحمتی جذبے کے لیے مشہور ہے۔ تھرپارکر کی تحصیل نگرپارکر کے نواحی گاؤں بھالوا میں پیدا ہونے والی ماروی اس خطے کی ثقافتی روح کی عکاس ہے۔ بھالوا ایک ایسی دیہاتی بستی ہے جہاں زندگی ریت کے ذروں، روایات کے رنگوں اور معاشرتی اقدار کے سائے میں سانس لیتی ہے۔ یہ خطہ جو قدرتی وسائل کی کمی کے باوجود اپنی ثقافتی دولت سے مالا مال ہے، ماروی کی کہانی کا نقطہ آغاز بنا۔ آج بھی بھالوا کا وہ کنواں، جہاں سے یہ داستان شروع ہوئی، ایک زیارت گاہ کی مانند ہے، جہاں لوگ ماروی کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے آتے ہیں۔

ماروی کے والد، پالنو پنہوار، ایک معزز دیہاتی تھے جنہوں نے روایات کے مطابق اپنی بیٹی کی منگنی ایک دیانت دار اور سادہ نوجوان کھیت سین سے طے کی۔ یہ فیصلہ علاقے کے ایک بااثر شخص پھوگ کو ناگوار گزرا، جو ماروی سے شادی کا خواہشمند تھا۔ اپنی ناکامی سے بھڑک کر پھوگ نے انتقام کی آگ سلگائی اور عمرکوٹ جا پہنچا۔ وہاں اس نے سومرو خاندان کے حکمران عمر سومرو کے سامنے ماروی کے حسن، سادگی اور دلکش شخصیت کی ایسی داستانیں بیان کیں کہ عمر اسے دیکھنے اور حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ پھوگ کا یہ عمل نہ صرف ذاتی حسد کا نتیجہ تھا بلکہ اس نے ایک ایسی زنجیر کو حرکت دی جس نے ماروی کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

ایک دن، جب ماروی اپنی سہلیوں کے ساتھ گاؤں کے کنویں پر پانی بھر رہی تھی، عمر سومرو نے موقع پاکر اسے زبردستی اغوا کر لیا اور اپنے شاہی محل میں لے آیا۔ محل کی چمک دمک، ریشمی لباس، قیمتی زیورات اور اقتدار کی پیشکش ماروی کے قدموں میں رکھ دی گئی۔ عمر سومرو نے اسے شہزادی بنانے کا خواب دکھایا، مگر ماروی کے دل میں اپنی مٹی کی خوشبو، اپنی جھونپڑی کی چھاؤں اور اپنے منگیتر کھیت سین کی محبت کی حرارت تھی، جو کسی بھی شاہی جاہ و جلال سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔

ماروی نے نہایت سادگی لیکن پرعزم لہجے میں عمر کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس نے کہا، "میں اپنی دھرتی، اپنے لوگوں اور اپنی عزت کو کسی تخت یا دولت سے نہیں بدل سکتی۔” اس کے اس انکار نے نہ صرف عمر سومرو کی طاقت کو للکارا بلکہ وہ جبر، ظلم اور لالچ کے خلاف ایک عظیم مزاحمت کی علامت بن گئی۔ ماروی کی یہ ثابت قدمی اس بات کی گواہ ہے کہ اصل طاقت دولت یا اقتدار میں نہیں بلکہ اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے اور اپنی شناخت کی حفاظت میں ہے۔

ماروی کی یہ بہادری سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے دل تک جا پہنچی۔ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "شاہ جو رسالو” میں "سر ماروی” کے ذریعے اس کردار کو امر کر دیا۔ بھٹائی نے ماروی کی اپنی دھرتی سے محبت، غیرت اور وفاداری کو اپنے اشعار میں سمو دیا:

ماروی نہ وٹھی محل، نہ مانی سومر سنگ،
سونھن ساندھی سچ میں، مٹ نہ ویئی منگ!

یہ اشعار صرف شاعری نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہیں جو سچائی، عزت اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔ بھٹائی نے ماروی کے کردار کو ایک عالمگیر پیغام بنا دیا، جو نہ صرف سندھ کی خواتین بلکہ ہر اس فرد کے لیے مشعلِ راہ ہے جو جبر کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ "سر ماروی” میں بھٹائی نے ماروی کی جدوجہد کو ایک روحانی سفر کے طور پر پیش کیا، جہاں وہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اپنی قوم اور ثقافت کی آواز بن گئی۔

روایت کے مطابق ماروی کی ثابت قدمی اور سچائی نے بالآخر عمر سومرو کے دل کو موم کر دیا۔ اس کی بہادری اور وفاداری سے متاثر ہوکر عمر نے اسے عزت کے ساتھ رہا کیا اور اسے اپنے گاؤں واپس جانے کی اجازت دی۔ ماروی اپنے منگیتر کھیت سین اور اپنی دھرتی پر واپس آئی، جہاں اس کا استقبال ایک ہیرو کی طرح کیا گیا۔ اس کی کہانی نے نہ صرف اس کے گاؤں بلکہ پورے سندھ میں ایک عظیم مثال قائم کی کہ محبت اور عزت کی حفاظت ہر شے سے مقدم ہے۔

ماروی کی کہانی صرف ایک لوک داستان نہیں بلکہ سندھ کی خواتین کی خودمختاری، ثقافتی شناخت اور مزاحمت کی علامت ہے۔ یہ کہانی سندھ کے لوگوں کے لیے ایک نظریہ اور فلسفہ ہے، جو انہیں اپنی مٹی، زبان اور روایات سے جڑے رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ماروی کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنی مرضی، اپنی عزت اور اپنی شناخت کی حفاظت کے لیے ایک بادشاہ کی طاقت کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کی کہانی صنفی برابری، عزت نفس اور سماجی انصاف کے موضوعات کو بھی اجاگر کرتی ہے، جو آج کے دور میں بھی انتہائی متعلقہ ہیں۔

بھالوا کا وہ کنواں، جہاں ماروی اغوا ہوئی، آج بھی موجود ہے اور ایک تاریخی و ثقافتی مقام کے طور پر سیاحوں، ادیبوں، محققین اور طلبہ کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ کنواں نہ صرف ماروی کی کہانی کا نقطہ آغاز ہے بلکہ سندھ کے لوگوں کی مزاحمتی تاریخ کا ایک نشان بھی ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ اس مقام پر جاتے ہیں، ماروی کی کہانی سنتے ہیں اور اس کی وفاداری و بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

آج کے دور میں، جب مادیت پرستی، مفاد پرستی اور جبر ہر سطح پر غالب ہیں، ماروی کی کہانی ایک روشن مینار کی طرح ہے۔ یہ ہمیں چند اہم سبق سکھاتی ہے

عزت نفس کی حفاظت کیلئے ماروی نے ہر لالچ کو ٹھکرا کر ثابت کیا کہ عزت اور خودداری کسی بھی مادی دولت سے بڑھ کر ہیں۔ اپنی مٹی اور روایات سے محبت وہ سرمایہ ہے جو کسی تخت یا سلطنت سے زیادہ قیمتی ہے۔سچائی اور وفاداری کا راستہ کٹھن ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ ہمیشہ عزت اور احترام کی شکل میں پھل لاتا ہے۔
ماروی کی محبت نہ صرف اپنی کی طرف سے تھی بلکہ اپنی سرزمین، اپنی ثقافت اور اپنی کے لوگوں سے بھی تھی جو محبت کی ایک عظیم اور جامع شکل ہے۔

ماروی کی کہانی ہر اس فرد کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی شناخت، اپنی عزت اور اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ خاص طور پر آج کی خواتین کے لیے ایک عظیم مثال ہے، جو سماجی، معاشی اور ثقافتی چیلنجوں کا سامنا کرتی ہیں۔

ماروی، صحرائے تھر کی بیٹی، آج سندھ کی تاریخ، ادب اور عوامی شعور کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ وہ ایک کردار سے بڑھ کر ایک نظریہ، ایک فلسفہ اور ایک ثقافتی اثاثہ بن چکی ہے۔ اس کا نام صحرائے تھر کی ریت میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے، جو ہر نسل کو اپنی جڑوں سے جڑے رہنے اور سچائی کے لیے ڈٹ جانے کی ترغیب دیتا ہے۔

ماروی کی لوک داستان سندھ کے لوگوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ وہ ہر اُس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو حق کے لیے ڈٹتا ہے، جبر کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے، اور اپنی دھرتی، ثقافت اور عزتِ نفس سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ماروی صدیوں تک زندہ رہے گی ، وہ سندھ کی بہادر بیٹی، سچ کی علامت اور وفا کا استعارہ تھی۔

Shares: