معاشرے کا انسان ننگا کیوں؟ تحریر: محمد اسامہ

0
31

پاکستان میں جنسی استحصال کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے. یہاں تک کہ 6 سال کے بچوں جنسی زیادتی کی جارہی ہے. جنسی استحصال کی شدت میں کئ عوامل پائے جاتے ہیں.
کچھ دن پہلے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ملک میں فحاشی اور جنسی زیادتی زیادتیوں کے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ
مرد کوئی روبوٹ نہیں، عورت کے مختصر لباس سے مرد کے جذبات بھڑک جاتے ہیں.
اس بیان کو لے ملک کے سوشل میڈیا اور الکٹرانک میڈیا پر ردعمل دیکھنے کو ملا ہے. لوگوں میں مختلف رائے پائ جاتی ہے. کچھ لوگ اس بیان کی حمایت کرتے ہیں. کچھ لوگ اس بیان کی مخالفت کرتے ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ حمایت کرنے والے بھی کلمہ گو ہیں اور اختلاف کرنے والے بھی کلمہ گو ہیں. پاکستان کی قوم کا ایک مسئلہ ہے کہ ان کے زیر بحث کوئی موضوع آنا چاہیے، پھر وہ دھڑا دھڑ اپنی آراء دیتے چلے جاتے ہیں. ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے کیا نتائج اخذ کیے جائیں گے! بس اختلاف رائے کی آڑ میں اپنی رائے کو مقدم بنا لیتے ہیں. اپنے نظریہ، مقصد زندگی کو پست پشت ڈال دیتے ہیں. یہاں تک کہ اسلامی احکامات کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے.
پاکستان جیسے اسلامی ملک میں فحاشی اور جنسی زیادتی زیادتیوں کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے. حیرانی اس بات کی ہے کہ 6 سال کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے. یہ ایسے دل دہلا دینے واقعات ہیں جن پر بات کرتے ہوئے جسم کانپ جاتا ہے، ان واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے.
ہمارے معاشرے میں شعور اور تربیت کا معیار ناپید ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں میں بے حسی اور بے روا روی پیدا ہوچکی ہے. بچوں کے ساتھ ایسا تشدد کیا جا رہا ہے جو ایک بھیڑیا چرواہے کے ریوڑ کے ایک چھوٹے میمنہ کے ساتھ کرتا ہے.
تربیت کا آغاز والدین کی گود سے ہوتا ہے. والدین کے ذمہ داری میں اخلاقی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ جنسی تربیت کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے. ہمارے معاشرے کے والدین اپنی اولاد کو جنسیت کے بارے میں کچھ نہیں سمجھاتے ہیں بلکہ بچوں کو اپنے دوستوں سے سیکھنے کو ملتا ہے. بچوں کو اسکا شعور نہیں ہوتا ہے، جنسی لزت میں ایسے لگ جاتے ہیں کہ واپسی تقریباً نا ممکن ہوجاتی ہے. ایک درمیانے طبقے کے گھر میں بچپن سے بچوں کو اپنے مقابل جنس سے دور رہنے کا کہا جاتا ہے، اس سے دور رہنے کی وجہ نہیں بتلائ جاتی ہے، تجسس میں مبتلا کر بچے کو کنفیوز دیا جاتا ہے. دوسرا ایلیٹ کلاس طبقے کے گھروں کا آزادانہ ہوتا ہے، ان گھروں میں برابری کے نام پر جنس کا فرق ہی نہیں کیا جاتا ہے، دونوں جنس ایک دوسرے کا ساتھ آزادی اظہار کیلئے آزاد ہوتے ہیں. یہاں تک تو غلطی والدین کی ہوتی ہے.
تعلیمی عمر کے دوران بھی بچوں کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوجاتا ہے. مدرسے جن میں احکام الٰہی پڑھاۓ اور سکھاۓ جاتے ہیں وہاں بھی بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، دین کا علم دینے والا استاد اپنے ہی معصوم شاگرد سے جنسی لزت کو پورا کرتا ہے. اس معاشرے کا مستقبل کیسا ہوگا جہاں دین کا علم دینے والے ہی احکام الٰہی کی مخالفت کرتے ہوں! اسی طرح دنیاوی تعلیم دینے والے اداروں میں جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے. استاد کا اپنے شاگرد سے افئیر چلتا ہے، کلاس کے طالب علم آپس میں افئیر چلاتے ہیں. یہ افسوس ناک منظر ہماری تربیت گاہوں کا ہے. ان کمزوریوں سے لوگوں آپس میں لڑوانے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنے آپ کو نیوٹرل سمجھنے والا ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے.
آخر بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے! جب سے دنیا بنی ہے خواتین سے زیادتی کے واقعات تو ملتے ہیں، بچوں کی حد تک جانا یہ عمل تشویشناک ہے.
قدرت نے جسم میں پیدا ہونے والی جنسی خواہش کو پیٹ میں لگنے والی بھوک سے مشابہت دی ہے. جنس کی بھوک کھانے کی بھوک سے بہت خطرناک ہے. جب جسم کو جنسی بھوک کی طلب ہوتی ہے تو وہ کہیں نا کہیں سے اپنی خوراک حاصل کرلیتا ہے، اسی لیے اسلام نے بالغ ہوتے ہی بچوں کو نکاح کے بندھن میں باندھنے کا کہا ہے. مغرب کی بات کی جائے تو وہاں جنس کی بھوک کو دور کرنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ وہاں حلال، حرام کا کوئی تصور نہیں ہے. اسلامی معاشرے میں حلال، حرام کا تصور پایا جاتا ہے تو پھر معاشرے کے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو اس بھوک میں پڑنے ہی نا دے، جیسے والدین اپنی اولاد کیلئے وقت پر خوراک کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے ہی اپنی اولاد کیلئے انکی جنس کی ضرورت کو بروقت پورا کرنے کیلئے انکا نکاح کریں. یہ فطرت ہے کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے.
معاشرے میں ضد بازی اور انا پرستی عروج پر پائ جاتی ہے، معاشرے میں اکثر معاملات ضد اور انا پرستی کی وجہ سے حل کی طرف نہیں جاتے ہیں. جیسا کہ مولوی حضرات نے صرف ایک پہلو کو سامنے رکھا ہوا ہے. ان کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ کلمہ گو لوگوں کو جہنمی قرار دیا جائے، زنا جیسے کبیرہ گناہ ہر ہونے والی سزائیں بتائ جاتی ہیں مگر اس گناہ سے بچنے کا کوئی حل نہیں بتایا جاتا، نکاح کو عام کرنے کی بات کرتے ہیں، مگر مولوی حضرات کے گھروں میں بھی دنیا داری کی شرائط پر رشتہ طے کیا جاتا ہے، اسلامی تقاضوں کو دوسرے نمبر پر رکھا جاتا ہے. دوسری طرف ہمارے معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ جو خود کو صرف مسلمان سمجھتا ہے وہاں تو نکاح کا تصور ہی کم ہوتا جا رہا ہے. بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ تک محدود ہوتے جا رہے ہیں. وہ مولوی کو صرف مسجد کا امام تک ہی محدود سمجھتے ہیں. باقی احکامات کے فیصلے خود ہی کرلیتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طبقوں کے لوگوں نے صرف کنفیوژن ہی پھیلائ ہے.
ان دونوں طبقوں میں علم کی زیادتی اور شعور کی کمی پائ جاتی ہے. علم تو اپنی اپنی جگہ بھرپور ہے، شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے. دونوں طبقوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق ایک دوسرے کی طرف انگلی اٹھائ ہے. کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں. ایک دوسرے کو نیچا کرنے اور مرد الزام ٹھہرانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے. یہ نہیں سوچتے کہ جن لوگوں کیلئے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائ جا رہی ہیں، ان کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ مزید مشکل میں پھنس جاتے ہیں. سیدھے الفاظ میں ہمارے معاشرے کا ہر فرد کنفیوز زندگی گزار رہا ہے، دین دار گھرانہ دین پر چل رہا ہے اور دنیا دار گھرانے دنیا کے معاملات کو سامنے رکھ اپنی زندگی گزارتے ہیں. رہی سہی کسر عورت مارچ والوں نے نکال دی ہے. عورتوں کے حقوق کے محافظ سمجھنے والی عورت مارچ کی تنظیم کا بھی ذکر کرلیا جائے، وہ خود کو عورتوں کے حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں، انہوں نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے کے سواۓ لوگوں کو مزید کنفیوز کردیا ہے . عورتوں پر یہ کوئی ظلم نہیں ہے کہ وہ گھر میں بچوں کو سنبھالتی ہے، کھانا بناتی ہے گھر والوں کے نخرے برداشت کرتی ہے. بلکہ عورتوں پر ظلم تو یہ ہے کہ ان سے پوچھے بغیر انکی شادی کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے، چھوٹی سی بات پر طلاق یافتہ کی مہر لگا دی جاتی ہے، معمولی سی بات پر ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، جہیز جیسی لعنت نا ہونے پر نکاح مشکل بنا دیا ہے. مگر آپ کا نکاح سے کیا تعلق آپ تو عورتوں کے تحفظ کی آڑ میں نکاح کے خاتمے کا باعث بن رہے ہیں. آپ واقعتاً عورتوں کے حقوق کا بیڑا اٹھانا چاہتے ہیں تو پہلے عورتوں پر ہونے والے مظالم کا واضح فرق تلاش کریں.
جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے جرم کو روکنے کیلئے دونوں طبقوں کے لوگوں کو دینی اور دنیاوی شعور حاصل کرنا ہوگا.
ضد اور انا پرستی کو چھوڑ کر معاشرے کیلئے سوچنا ہوگا. مولوی کو چاہیے وہ صرف دینی علم پر اکتفا نا کرے بلکہ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرے، اسی طرح دنیا دار طبقے کو بھی چاہیے کہ صرف دنیاوی علم پر اکتفا نا کرے بلکہ دین کے علم کو بھی سمجھیں.
وزیر اعظم کے بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ہم اسلامی معاشرے کے باشندے ہیں ہمیں اسلام نے حدود میں رہنے کا حکم دیا ہے، عورت کو الله نے بڑا دلکش بنایا ہے. جس کو دیکھتے ہی مرد کے جذبات بھڑک جاتے ہیں.
میرے نزدیک جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے جرم کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے نکاح کو آسان اور عام کیا گیا جائے یا پھر معاشرے میں جنس کی کنفیوژن کو ختم کر دیا جائے.

@its_usamaislam

Leave a reply