
بے حس سناٹے میں گم ہوتی ہوئیں معصوم زہرہ کی چیخیں
تحریر: اعجازالحق عثمانی
چاچو میں نہیں جاؤں گی! یہ چار سالہ زہرہ کی وہ آخری چیخ تھی، جو سرائے عالمگیر کے ایک گلی کوچے میں کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کی۔ یہ چیخ اس معصوم کی تھی، جو تیرہ سال کے انتظار کے بعد جنید اور اس کی بیوی کی جھولی میں خوشی بن کر آئی تھی۔ لیکن افسوس، پانچ جنوری کی وہ شام ان کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ لے آئی۔ زہرہ کو پہلے اغوا کیا گیا، پھر وحشیانہ انداز میں ریپ اور قتل کے بعد ایک بے جان لاشہ بنا کر چھوڑ دیا گیا۔
زہرہ کے کیس کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق، اس کے جسم پر کئی گہرے زخم تھے۔ معصوم کے وجائنل پارٹس کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا۔ یہ مناظر صرف زہرہ کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس انسان کے لیے شرمناک ہیں جو خود کو مہذب کہتا ہے۔
یہ کوئی پہلی کہانی نہیں۔ 2018 میں قصور کی زینب کا واقعہ یاد کریں، جس نے پورے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ زینب کے قاتل کو پکڑا گیا، سزا دی گئی، پھانسی پر لٹکایا گیا، لیکن کیا اس کے بعد قصور میں یا ملک میں بچیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعات ختم ہو گئے؟ ہرگز نہیں!
قصور آج بھی پیڈوفائلز کا گڑھ ہے۔ الجزیرہ کی ایک ڈاکیومنٹری نے یہ تلخ حقیقت بے نقاب کی کہ زینب کے والد کی بے بسی آج بھی زندہ ہے، کیونکہ اس علاقے میں کئی اور بچیاں اب بھی جنسی استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان معصوموں کے والدین کو انصاف ملے گا؟
ہمارا معاشرہ خواتین اور بچیوں کو محض "سیکس آبجیکٹ” کے طور پر دیکھتا ہے۔ طاقت، برتری اور جنسی تسلط جیسے تصورات کئی صدیوں سے مردوں کے ذہن میں بیٹھے ہیں۔ مذہبی بیانیے ہوں یا معاشرتی روایات، عورت کو اکثر "عزت” اور "غیرت” سے منسلک کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جاتا۔
قارئین کرام!پاکستان میں ریپ کے کیسز کی رپورٹنگ بھی از خود ایک چیلنج ہے۔ بہت سے والدین خوف یا سماجی دباؤ کی وجہ سے مقدمہ درج نہیں کراتے۔ جو مقدمے درج ہو بھی جائیں، ان میں سے کتنے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں؟ عدالتوں کی سست روی، پولیس کی نااہلی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر سنجیدگی ایسے واقعات کے بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب پنجاب کی حکومت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے تو کیا وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھا رہی ہیں؟ زینب الرٹ بل، جس کا بہت شور اور کریڈیٹ لیا گیا تھا۔کیا وہ صرف کاغذی قانون بن کر رہ گیا ہے؟
زہرہ کی کہانی ہمارے معاشرے کے لیے ایک آئینہ ہے۔ یہ آئینہ ہمیں ہماری ناکامیوں کا چہرہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ان مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا تو نہ جانے کتنی زہرائیں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔
قارئین محترم آئیے! ہم خود سے سوال کریں کہ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ بنا سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو کب؟ اگر نہیں، تو کیوں؟