محنت کش بچے تحریر : واجد خان

0
57

بچے سب کو اچھے لگتے ہیں، والدین اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں اس لئے انہیں اچھی تعلیم دلاتے ہیں،اور ان کی صحت کا خیال رکھتے ہیں تاکہ وہ اچھے شہری اور اچھے انسان بن سکیں، لیکن بدقسمتی سے دنیا میں بعض بچوں کو غریبی اور مجبوری کی وجہ سے تعلیم کے بجائے محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے ۔۔ ۔۔
یہ بچے سارا دن سڑکوں ، بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں، بہت سے معصوم اور پھول جیسے بچے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے، بسکٹ اور ٹافیاں بیچتے ہوئے، اخبار اور پھولوں کے ہار فروخت کرتے نظر آتے ہیں، ان کی عمریں بھی عموماً کم ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔
بعض والدین بھی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچوں کو کام پہ لگا دیتے ہیں، غربت اور تنگدستی کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے ان سے محنت مشقت کروانے پہ مجبور ہوتے ہیں، تاکہ وہ بھی کچھ کما کر گھر کا خرچ چلانے میں مدد کر سکیں، ان میں ایسے بچے بھی ہیں جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہوتے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کام کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔۔۔
یہ محنت کش معصوم بچے تعلیم سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور اور زندگی کے آرام و آسائش سے بے نیاز صبح سے رات تک اپنے کام میں مگن رہتے ہیں، انہیں تو زندگی کی سہولتوں کا بھی پتا نہیں ہوتا، یہ ان کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں، لیکن وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔
بچوں کو مستقبل کے معمار کہا جاتا ہے، لیکن کیا تعلیم سے محروم یہ محنت کش بچے ہمارے ملک کا روشن مستقبل اور معمار بن سکتے ہیں ؟ محنت مزدوری کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن معصوم بچوں سے مشقت لینا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 11 میں کہا گیا ہے کہ چودہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ فیکٹری، دکان، ہوٹلز، میں ملازمت نہیں کر سکتا، لیکں اس کے باوجود چودہ سال سے کم عمر کے بچے مختلف ہوٹلوں، کارخانوں میں کام کرتے نظر آئیں گے، اکثر بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پہ بھی رکھا جاتا ہے جہاں ان کی عمر سے بھی بڑے کام کروائے جاتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔۔۔
بطور معاشرہ ہم اتنے پستی میں گھر چکے ہیں کہ ان معصوم بچوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک دیکھنے میں آتا ہے،جو کہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ شرم بات ہے، حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی یہ زمہ داری ہے کہ ہم ان بچوں کو تعلیم دلوانے کی کوشش کریں اور جہاں کہیں انہیں ظلم کا شکار ہوتا دیکھیں ہر ممکن طور پہ ان کی مدد اور داد رسی کریں، اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں نظر آنے والے محنت کش بچوں کو روزانہ کی بنیاد پہ کم سے کم دو گھنٹے نکال کر پڑھانے کا اہتمام کریں، یقیناً یہ بچے پڑھ لکھ کر مستقبل کے معماروں میں شامل ہوں گے۔۔۔
محنت کش بچے قابلِ تعریف اور قابلِ توجہ ہوتے ہیں، زیادہ نہیں تو اپنے گھر کے ملازم بچوں کو ہی تعلیم دینا شروع کریں، ہو سکتا ہے کہ کل کو یہ بچے اس قابل ہو جائیں کہ دوسرے بے سہارا بچوں کا سہارا بن جائیں، اس طرح علم کے چراغ سے چراغ جلتے چلے جائیں گے۔۔۔
آئیں بے سہاروں کا سہارا بنیں یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور اللّٰہ کی خوشنودی کا باعث بھی، آئیے ہم اور آپ بھی اس کا حصہ بنیں
” وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں،
جنہیں تتلی پکڑنا تھی، جنہیں باغوں میں ہونا تھا

‎@Waji_12

Leave a reply