مہنگائی،نوجوان نسل اورسستے سگریٹ۔۔؟تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

گذشتہ ہفتے گھرکاسودا سلف خریدنے کیلئے میں بازارجاناہوا جہا ںمہنگائی کاسونامی آیا ہوا تھا ،اشیائے ضروریہ کی قیمتیں سن کر ہاتھوں کے طوطے اڑگئے ۔اس ہوشرباء مہنگائی کی وجہ سے جسم وجاں کارشتہ برقراررکھنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے ،اپنے بجٹ کے مطابق خریدا ری کررہاتھاتواس دوران سگریٹ ڈسٹری بیوٹرکا ایک رکشہ ڈبہ آکررکا جس پر سے دونوجوان سیلزمین اترے ایک دکان کے اندرچلاگیا دوسرے نے کچھ پوسٹراٹھائے اور دکانوں کی دیواروں انہیں لگاناشروع کردیا،کچھ دیر کیلئے میں سودا سلف لینا بھول گیا اور سگریٹ کے پوسٹر لگانے والے کودیکھنے لگا جب اس نے دیوارپر پوسٹرچپکا لیا تو مجھے اس وقت شدید حیرت کااحساس ہوا،اس پوسٹرپر ایک نئے برانڈ کی 20سگریٹ کی ڈبی دکھائی گئی تھی جس کی قیمت صرف 30روپے درج تھی ،جس سے ایک جھٹکاسالگا،اس مہنگائی کے دور میں ایک سگریٹ کی ڈبی صرف 30روپے میں نوجوانوں کودی جارہی تھی جو 20 سگریٹ پرمشتمل تھی۔پاکستان میںآٹا،چینی ،دالیں ،سبزیاں ،ادویات سمیت ضرویات زندگی کی ہرچیزمہنگی ہے مگراس مہنگائی کے دور میں سگریٹ کاسستاہونابہت سے سوالات کوجنم دیتا ہے کہ سگریٹ اتنے سستے کیوں بیچے جارہے ہیں ۔۔؟

اگرباقی دنیاسے سگریٹ کی قیمتوں کاتقابلی جائزہ لیاجائے تودنیامیں سب سے مہنگے سگریٹ سری لنکامیں ہیں جہاں سگریٹ کی ایک ڈبی کی قیمت نوڈالرکے قریب ہے اورپاکستان میں سگریٹ اتناسستاہے کہ 20سگریٹ ایک ڈبی کی قیمت صرف 30پاکستانی روپے ہے ،سگریٹ کی قیمت کم ہونے کی وجہ ایکسائزٹیکس کاکم ہونایا صحیح لاگونہ ہوناہے اورسگریٹ کی غیرقانونی سمگلنگ کانہ رکنے سلسلہ بھی اس میں شامل ہے ۔ نئی حکومت کو سگریٹ نوشی کے معاملے کوسنجیدہ لینا چاہئے ،سگریٹ پر بھاری ایکسائزٹیکسز لگاکرٹیکس وصولی پرعملدآمدکرائیں ،ٹیکس بڑھنے سے سگریٹ کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کے استعمال میں کمی ممکن ہو گی اورتمباکونوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والی ہماری نوجوان نسل بھی ہلاکت سے بچ جائے گی۔

پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں درست فیصلہ سازی کی اشد ضرورت ہے۔ قومی خزانے کو درپیش خسارہ پالیسی سازوں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ملکی خزانے کو دیرپا مدد نہیں کر سکتا۔ حکومت کو غیر ضروری اور مضر صحت اشیا جیسے تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانا چاہئے کیونکہ اس سے نہ صرف محصولات بڑھیں گی بلکہ صحت کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوگی،ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمباکو انڈسٹری کی جانب سے کی گئی کثیر خرچ مہمات اور گمراہ کن اشتہارات ومعلومات سے متاثر ہو کر پاکستان کے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کیونکہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں انہیں ہمیشہ راضی رکھتی ہیں،اس لئے پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ سگریٹ کی آسان دستیابی اور سستی ہونے کی وجہ سے پاکستان میںتمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 2.9 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔تمباکو نوشی کرنے والے افرادکئی قسم کی خطرناک بیماریوں کا شکار ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 170,000 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

تمباکو نوشی نہ صرف اس شخص کے لیے مضرہے جو اِس کی عادت کا شکار ہے بلکہ ان افراد کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو اس کے آس پاس رہتے ہیں، جسے سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کہتے ہیں۔ یعنی آپ خود تو سگریٹ نہیں پی رہے ہوتے لیکن دوسروں کی سگریٹ کا دھواں آپ کے پھیپھڑوں کو اور آپ کے نظامِ صحت کو بھی انتہائی نقصان پہنچاتا ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موت کا سبب بننے والی آٹھ اہم وجوہات میں سے موت کی چھ وجوہات تمباکو نوشی کی وجہ ہیں۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر سال تمباکو نوشی کرنے والے کم از کم 50لاکھ افراد پھیپھڑوں کے سرطان، دل کے امراض اور دوسری وجوہات کی بنا پر انتقال کرجاتے ہیں۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہاتو2030 میں تمباکو نوشی سے منسلک وجوہات کی بنا پر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 80لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ایک آدمی جو ایک سگریٹ پیتاہے تواس کی زندگی کے پانچ سے11منٹ کم ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ایک فرد سگریٹ نوشی کرکے اپنی زندگی کے 12سال کم کردیتا ہے۔ اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے 25فیصد افراد اور پھیپھڑوں کے کینسرزدہ 75فیصد افراد کی ہلاکت کا براہ راست تعلق سگریٹ نوشی ہوتاہے دوسری طرف تمباکو نوشی کا بینائی پر اثر ہونا ایک معلوم حقیقت ہے تاہم ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ تمباکو نوش افراد میں سے صرف ایک فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تمباکو نوشی اندھے پن کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

سگریٹ نوشی بچوں کی صحت پر براہ راست اثرات مرتب کرتی ہے۔ پاکستان میں روزانہ 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں تمباکو پر ٹیکس بڑھانے سے یہ تعداد کم ہو جائے گی۔ دوسری طرف اقتصادی ماہرین کاکہناہے کہ تمباکو کے استعمال سے سالانہ 615 ارب کا معاشی بوجھ پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔ اس کی وجہ سے کئی منفی اثرات ہوتے ہیں جیسا کہ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات اور تمباکو سے منسوب بیماریوں کی وجہ سے صارفین کی پیداواری صلاحیت میں کمی۔ دوسری طرف 2019 میں تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی 120 ارب تھی جو تمباکو نوشی کی کل لاگت کا تقریبا صرف 20 فیصد ہے،ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ تمباکو کے استعمال سے ہونے والے صحت اور معاشی اخراجات ٹیکس کی وصولیوں سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔ اگرچہ تمباکو کی صنعت سطحی طور پر ایک بڑی ٹیکس دینے والی صنعت ہے لیکن تمباکو کی صنعت کا ادا کردہ ٹیکس تمباکو کے استعمال سے ہونے والے نقصان کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود ٹیکس قانون مارکیٹ میں فروخت ہونے والے تمام سگریٹ پر لاگو کردیا جائے تو حکومت کو سالانہ 200 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس مل سکتا ہے جبکہ اس وقت حکومت کو سالانہ 114 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہورہا ہے۔ موجوہ نظام میں غیر قانونی سگریٹ کی سستے داموں پر فروخت تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ماہرین کایہ بتاناہے کہ تمباکو پر ٹیکس سب سے زیادہ کفایتی تمباکو کنٹرول اقدام ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ سگریٹ پر زیادہ ٹیکس سگریٹ نوشی کے آغاز کو روکتا ہے، سگریٹ کا استعمال کم کرتا ہے، اور یہاں تک کہ تمباکو نوشی چھوڑنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ تمباکو پر ٹیکس لگانے میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ موجودہ حکومت کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھا کر عوام اور ملکی معیشت کی مدد کی جائے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 30% اضافہ کیا جائے تواس سے ایک طرف اضافی ریونیو حاصل ہوگا دوسراسگریٹ کی قیمتیں زیادہ ہونے سے ہماری نوجوان نسل تباہی سے بچ جائے گی اورسگریٹ سے حاصل شدہ ریونیو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

Leave a reply