میں شاہین ہوں اقبال کا — اعجازالحق عثمانی

0
36

پاکستان کی کل آبادی میں نوجوانوں کی تعداد تقریباً 70 فی صد ہے۔ اور یہی نوجوان ملک کا مستقبل ہیں۔ مگر اس مستقبل کا ساتھ ریاست کا رویہ، افسوسناک ہے۔ پاکستان کے اس 70 فی صد سے جذباتی بنیادوں پر ووٹ لے لیے جاتے ہیں۔ مگر پھر حکومتیں انکو بھول جاتی ہیں۔ اسمبلیوں میں صرف ایک دوسرے کو چور، ڈاکو ہی کہا جاتا ہے۔ اپنی سیاست چمکانے کے لیے جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ مگر نوجوان کی کوئی بات نہیں کرتا۔ نوجوان اگر سمجھ جائے تو یہی وقت کا بادشاہ ہے۔ مگر نوجوان کنفوز ہے۔ اس لیے کہ اس کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ جسکی وہ پیروی کر کے آگے بڑھے۔کیونکہ موجودہ دور میں مذہبی یا سیاسی کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ہے، جو نوجوان نسل کو متاثر کر سکے۔لیکن اگر یہی نوجوان نسل، اقبال کے فلسفہ اور فکر سے رہنمائی لے۔تو یقیناً وقت کے بادشاہ بن سکتے ہیں۔علامہ اقبال نے نوجوان نسل کےلیے ہی فرمایا تھا کہ

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

اقبال نے نوجوان نسل کو شاہین سے تعبیر کیا ۔ شاہین خود دار اور بے خوف پرندہ ہے۔ نڈر ہو کر پروں کو کھول کر فضا میں اڑتا ہے۔اقبال کی شاعری میں موجود فکر اور فلسفہ انھیں باقی شعراء سے منفرد بناتا ہے ۔ وہ اپنے وقت کے مظلوموں کی طاقتور ترین آواز تھے۔ آج بھی انکی فکر سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ ان کے فلسفے میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔

کبھی نوجوان قوت خوابیدہ کو بیدار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا

پیغام خودی دے کر اقبال اس قوم کے نوجوانوں کے لیے ہمیشہ دعا گو رہے۔ جس کی جھلک ان کے اشعار میں بھی ملتی ہے۔

جوانوں کو میری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

خدایا آرزو میری یہی ہے

میرا نور بصیرت عام کر دے

خدا کرے کہ ہم نوجوانوں کو فکر اقبال سمجھ آجائے۔ اور ہم اپنے مقام و مرتبے کو پہچان پائیں۔

Leave a reply