کراچی:میمن گوٹھ پولیس کا 3 کروڑ روپے کی چھالیہ مافیا کو فروخت کرنے کا انکشاف
کراچی (نامہ نگار بلاول سموں کی رپورٹ)میمن گوٹھ پولیس کا 27 ٹن چھالیہ اسکینڈل،3 کروڑ کی ڈیل میں اعلیٰ افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف
تفصیلات کے مطابق کراچی میں میمن گوٹھ پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر 3 کروڑ روپے مالیت کی چھالیہ گٹکا ماوا مافیا کو فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق 27 ٹن چھالیہ جو پولیس چھاپے کے دوران برآمد کیا گیا تھا، اسے منصوبہ بندی کے تحت غائب کرکے مافیا کو فروخت کیا گیا۔ اس معاملے میں ایس ایچ او میمن گوٹھ طاہر قادری، ڈی ایس پی غلام شبیر جمالی اور دیگر افسران کے ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بین الصوبائی ڈیلروں نے ڈیری فارم کی آڑ میں 40 ٹن کے قریب چھالیہ چھپایاہواتھا۔ ایس ایچ او طاہر قادری کو مخبری ملی کہ واٹر پارک کے قریب ڈیری فارم میں بھاری مقدار میں چھالیہ موجود ہے۔ 15 اور 16 اکتوبر کی شب پولیس نے چھاپہ مارا اور موقع پر موجود ملزمان کو گرفتار کرکے چھالیہ برآمد کیا۔ تاہم چھاپے کے دوران 27 ٹن چھالیہ کو پولیس اہلکاروں نے پرائیویٹ گاڑیوں کے ذریعے غائب کر دیا۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق کرائم منشی سعید بھنگر نے برآمد شدہ چھالیہ گٹکا ماوا مافیا کو فی کلو 800 روپے کے حساب سے فروخت کیا۔ ڈیل کی رقم جو تقریباً 3 کروڑ روپے بنتی ہے چار حصوں میں تقسیم کی گئی۔ ان میں ایک حصہ ڈی آئی بی انچارج پیر سبور، دوسرا حصہ ایس ایچ او طاہر قادری، تیسرا ڈی ایس پی غلام شبیر جمالی اور چوتھا حصہ پولیس پارٹی کے دیگر اہلکاروں کو دیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او اور دیگر افسران نے چھاپے کی کارروائی کو اصلی رنگ دینے کے لیے 13 ٹن چھالیہ برآمدگی ظاہر کرکے مقدمہ درج کیا۔ ایک ٹرک کو پولیس تھانے منتقل کیا گیا تاکہ بالا افسران کو کارروائی کا تاثر دیا جا سکے، جب کہ باقی مال خاصخیلی مارکیٹ کے عقب میں واقع ایک گودام میں منتقل کر دیا گیا۔
اندرونی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر تھانہ میمن گوٹھ کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لیا جائے تو تمام گاڑیوں کی نقل و حرکت واضح ہو جائے گی۔ ذرائع نے مطالبہ کیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر کاشف آفتاب عباسی اس معاملے کی شفاف تحقیقات کریں کیونکہ اس چھاپے میں بڑے پیمانے پر غبن اور اختیارات کے غلط استعمال کے شواہد موجود ہیں۔
میمن گوٹھ پولیس کی اس کارروائی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں تو مزید انکشافات متوقع ہیں جو اس بات کو ثابت کریں گے کہ کس طرح سرکاری اہلکاروں نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بدعنوانی کی۔