میرا بچپن ہائی کورٹ کی لان میں کھیلتے گذرا : وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا سندھ ہائی کورٹ بار کی سالانہ عشائیہ تقریب سے خطاب

0
24

کراچی : میرا بچپن ہائی کورٹ کی لان میں کھیلتے گذرا ۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ ہائی کورٹ بار کی سالانہ عشائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا بچپن ہائی کورٹ کی لان میں کھیلتے گزرا جب میرے والد ہائی کورٹ کے وکیل تھے۔ ان دنوں میرے والد مجھے اور میری بہن کو اسکول سے یہاں چھوڑتے اور خود اپنے کیسز کیلئے نکل پڑتے ۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد زندگی میں ایام میں ویل چیئر پر سخت بیماری کی حالت میں آکر بیل کیلئے پیش ہوئے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس ملک کا آئین ہے جس سے ہم سب نے فالو کرنا ہے۔ میں 2002 سے رکن اسمبلی ہوں، 1973 کے آئین میں اسمبلی رکنیت کیلئے دو اہلیت تھیں جس میں اس ملک کا شہری ہونا اور عمر کی حد شامل تھی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وقت کے ساتھ مقننہ کو کمزور کرنے کیلئے 7 اہلیت رکھی گئی جس میں صادق و امین بھی شامل ہوگئی جبکہ پہلے نااہلیت کی چارحدیں تھیں اب 16 ہوگئی ہیں جس میں پروفیسر اور سیکنڈ ایئر بھی اہل ہونا شامل کردیا گیا ہے اور اب ایف بی آر، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور دیگر اداروں سے رپورٹ منگوائی جاتی ہیں۔ جسٹس منصور علی خان کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جس وقت جسٹس منصور علی خان چیف جسٹس پنجاب تھے تو کسی نے لکھا کہ یہ مریکل ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جب ایک مقننہ انتخابات کیلئے جاتے ہیں پھر اسکروٹنی شروع ہوتی ہے۔ اگر رکن اسمبلی بن گیا تو چینلنج بھی ہونا شروع ہوجاتا ہے، میں انسٹرکشس کو کمزور کرنے کیلئے جو بات کرتا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئین کو تحفظ نہ دے سکے، اگر کوئی رکن اسمبلی بن جاتا ہے تو چیلنج کی صورت میں ٹربیونل کو چھ ماہ فیصلہ کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایگزیکٹو کو کمزور کیا گیا ہے، ایگزیکٹو کیسز بھی مجھے بھگتنے پڑتے ہیں، اگر کچھ کہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ توہین عدالت لگ جائے گی، باقی دنیا میں توہین عداہت کے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لندن میں ایک اخبار نے جج کا الٹا فوٹو شائع کرکے کیپشن لکھا پرانا فوٹو ۔ جس پر جج نے کہا میں پرانا ہوں، لیکن بیوقوف نہیں اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے لیکن میں توہین عدالت نہیں لگاؤ ں گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ اب عدلیہ ایگزیکٹو کا پاور بھی لے گئی ہے، عدلیہ نے ایگزیکٹو اور مقننہ کے پاور پر بھی قبضہ کیا ہے اس طرح کرنے سے ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے آج لاہور میں کہا کہ ہم دباؤ یا ڈکٹیشن نہیں لیتے، چیف جسٹس کی یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی خان نے لکھا تھا کہ عدلیہ آخری امید ہے، عدلیہ نے جمہوریت کو تحفظ دینا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں جب سیاست میں آیا تو میرے والد نے کہا کہ آپ کے کام پر شک کیا جائے گا،میں امریکا میں نوکری کررہا تھا جب مجھے والد نے بلاکر انتخابات لڑنے کیلئے کہا۔ خطاب کے آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے وکلاءکیلئے ہیلتھ انشورنس دینے کا اعلان کیا اور سندھ ہائی کورٹ کے دیرینہ مسئلہ پارکنگ کا حل بھی نکالنے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے شرکاء کو سندھ کابینہ میں میرپورخاص میں ہائی کورٹ سرکٹ بینچ قائم کرنے کی بات بھی کی ۔

Leave a reply