میرے دیس کی عیدیں بدل گئیں تحریر: سیدہ ام حبیبہ

0
25

محترم قارئین عید کی مبارکباد کے ساتھ ماضی کے جھروکوں میں کھلکھلاتی بکرا عیدوں کے سفر کو چلتے ہیں.
ذوالحج کے چاند کے ساتھ ہی بکرے کے گلے میں رنگ برنگ پٹے پہنا لینا
اگر بکرے کا رنگ سفید ہے تو اس پہ مہندی لگانا.
اسے صاف ستھرا کر کے گلیوں میں گھمانا اور دوستوں کے ساتھ اٹکیلیاں کرنا.
پی ٹی وی پہ حج ٹیلی کاسٹ دیکھنے کے لیے چونکہ سکول سے چھٹی ہوا کرتی تھی تو
مؤدب ہو کر
لبیک الھم لبیک ان الحمدونعمت لک ولالملک لا شریک لک
کی صدا دینا.
سر شام کپڑے جوتے چوڑیاں پھیلا کر رکھ لینا اور مہندی لگوانا.
صبح تیار ہونا ویسی طلب کرنا اور قربانی کے بکرے کو بار بار گلے لگانا اس کے ناز اٹھانا اور زارو قطار رونا.
ایسے ہزاروں لمحے جو اب ہم سے کوسوں دور نکل گئے
عیدوں پہ ناراضیاں ختم کرنے کے لیے عید سے ایک دن پہلے ایک دوسرے کے گھر منانے جانا
کسی فوت شدہ کی پہلی عید پہ اہل خانہ سے اظہار غم و یکجہتی کے لیے لازمی جانا
یہ رویات ٹکنالوجی چرا لے گئی
اب ہم میلوں دور بیٹھے دوستوں ڈالرز اور فینز سے تو رابطے میں ہیں مگر پاس بیٹھے بڑے بوڑھوں سے بہت دور چلے گئے.
معلوم نہیں کسی نے اپنے گھر کے تمام افراد کو عید مبارک کہا کہ نہیں.
یہ تبدیلی نہیں تنزلی ہے اعلی اقدار سے اخلاقی پستی کی جانب
اب ہماری عیدیں اداس ویران ہیں .اب ہم عید مناتے نہیں گزارتے ہیں.
سو کر یا تکیے بھگو کر
ہم بکرا عید سے دو دن پہلے لاتے ہیں کاٹتے کھاتے ہیں سٹیٹس لگاتے ہیں اور کھو جاتے ہیں اپنے ہی اندر کی دنیا میں.

جہاں عید تہوار ہوا کرتا تھا اب خرافات کا لائسنس بن گئی

نا جانے کب سے عید کے سارے لمحے اور ذائقے ہماری زندگی کی ہتھیلیوں سے ریت کی مانند پھسل رہے تھے معلوم تب ہوا جب عیدیں سو کر گزرنے لگیں

آپکی عیدوں کا حال تو آپ جانیں
میرے دیس کی تو عیدیں بدل گئیں
بیتی ہوئی عیدوں کی یادیں باقی ہیں.

@hsbuddy18

Hspurwa198@gmail.com

Leave a reply