میرے ہمرکاب تحریر: حبیب الرحمٰن خان

0
24

میرا بچپن اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود کر گزرا۔ میری سکول میں ہمیشہ پوزیشن اچھی رہی اسی وجہ سے اپنے اساتذہ اکرام کی آنکھوں کا تارا رہا۔ کچھ دوست جو میرے بچپن کے ساتھی تھے زندگی کے بقیہ حصے میں بھی ساتھ رہے میں نے پراہمری سکول سے فارغ ہونے کے بعد ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں بھی اساتذہ کی توجہ اور والدین کی دعاؤں سے ہر سال پوزیشن لیتا رہا۔ پھر کالج میں آ گیا زندگی چلتی رہی میں نے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی شروع کر دی۔
لیکن بنیادی طور پر میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ سو سب خاندان کے افراد مجھے سرکاری نوکری کی طرف دھکیلنا چاہتے تھے۔بظاہر مجھے بھی متبادل راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ سو اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ ملازمت کے لیے کوشاں ہو گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ملازمت ملنا جؤۓ شیر لانے کے مترادف ہے اور میری ڈگریاں اس کے حصول کے لیےشاید ناکافی ہیں۔لیکن میرے ساتھی مجھے ہر لمحہ حوصلہ دیتے رہے جن میں سے اکثر کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ اگر میری ڈگریوں نے میرا ساتھ چھوڑ بھی دیا پھر بھی میں اپنے دوستوں کے توسط سے نوکری پانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ گھر کے حالات مجھے زیادہ عرصہ تک بے روزگار رہنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ایک دن میں اپنے ایک دوست کے گھر اس سے ملنے گیا تو اس کے والد صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے احوال پوچھا تو اپنی ساری تگ و دو ان کے گوش و گزار کر دی۔ انھوں نے انتہائی شفقت سے مجھے سمجھایا کہ ملازمت کا حصول آسان نہیں ہے اس سے بہتر ہے کہ اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو کاروبار پر صرف کرو۔ ان کی بات بظاہر معقول تھی لیکن کاروبار کے لیے پیسہ کہاں سے آۓ یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا جب ان کو صورتحال بتائی تو انھوں نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بنک سے قرضہ دلوا دوں گا۔ ان کے اس مشورے کو باقی دوستوں کے سامنے رکھا تو سب نے انکی تائید کی پھر گھر والوں کو جیسے تیسے راضی کیا اور اپنے اکلوتے گھر پر قرض لے لیا۔ قرض کے حصول میں انھوں نے ہی میری مدد کی۔قرض ملنے پر میں اپنے دوست کے والد کے پاس گیا اور رہنمائی چاہی۔ تو انھوں نے فراغ دلی سے اپنی ہی فیکٹری میں حصہ دار بننے کی آفر کی مجھے یہ آفر انتہائی موزوں لگی کیونکہ کاروبار میں بھی میرا تجربہ نہیں تھا۔دیگر احباب کی مشاورت کے بعد میں انکا باقاعدہ حصہ دار بن گیا۔ میں زاتی طور پر فیکٹری کی نگرانی کرنے لگا اور زندگی چلنے لگی پھر تین سال بعد اچانک مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ فیکٹری خسارے میں چلی گئی ہے اور میرا سرمایہ ڈوب گیا ہے یوں یہ آسمانی بجلی مجھ پر ایسی گری کہ میرا گھر بک گیا ہم کراۓ کے مکان میں آگۓ۔ میں نے اپنے دوست کے والد سے اسی فیکٹری میں ملازمت کی درخواست کی تو انھوں نے یہ کہہ کر رد کر دی کہ فیکٹری پہلے سے خسارے میں ہے۔مالک مکان کا کراۓ کے لیے اصرار بڑھنے لگا۔ گھر میں نوبت فاقوں تک پہنچ آہی۔ میرے ایک غریب دوست نے مجھے ایک سکول کے باہر برگر لگانے کا مشورہ دیا مجھے عجیب سا لگا لیکن میرے اس دوست نے جبر کر کے (ایسا سمجھ لیں) مجھے آمادہ کیا اور ریڑھی سمیت دیگر چیزوں کے حصول میں نہ صرف مدد کی بلکہ کچھ دن بلامعاوضہ میرے ساتھ کام بھی کیا
آج الحمدللہ میری زندگی گزر رہی ہے اور کبھی کبھار میرے دوست کے وہ والد جنھوں نے مجھے برباد کیا اسی سکول میں اپنے ایک اپاہج نواسے کو لینے آتے ہیں اور میرے پاس سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں
لیکن میں اللہ پاک کا شکر گزار ہوں کہ میں ان کی طرح صاحب ثروت تو نہیں لیکن ان کے نواسے کی طرح اپاہج بھی نہیں
#حبیب_خان

Leave a reply