یاسمین آفتاب علی
ایران کے صدر نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ جاری تنازعے میں ایران کو مداخلت پر مجبور کر کے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس کے سنگین اور ناقابل تلافی نتائج ہو سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایران کے اندر ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، جو اسرائیلی حملوں کے شدت اختیار کرنے کے بعد احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا گیا اقدام ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپیں اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک گہری طاقت کی جنگ کی عکاسی کرتی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تہران کا مقصد ایک عسکری نیٹ ورک قائم کرنا ہے جو غزہ، عراق، شام، لبنان اور یمن کو آپس میں جوڑ کر اسرائیل کے لیے ایک نئی اسٹریٹیجک حقیقت تشکیل دے۔ تاہم اسرائیل جارحانہ فوجی حکمت عملیوں کے ذریعے ان منصوبوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے، دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی فیصلہ کن فتح حاصل نہیں کر سکا اور جلدی اس کا امکان بھی نہیں۔ اس تباہی کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں نے اٹھایا ہے، جو بے گھر ہو رہے ہیں اور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ ایران کے وفادار گروہوں نے عراق اور یمن سے اسرائیل پر حملے کیے ہیں، لیکن اہم جنگی علاقے غزہ اور لبنان ہی ہیں، جہاں اسرائیل حماس اور حزب اللہ سے برسرپیکار ہے۔ حزب اللہ اور حماس کو بھاری نقصان کے باوجود اسرائیل کی غزہ میں جنگ بندی پر آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے خطہ ایک بڑے جنگ کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے فوجی کارروائیوں کو روکنے سے انکار ان کی سیاسی بقا سے منسلک ہے، کیونکہ وہ اس جاری تنازعے کو قومی بحران کے دوران اپنی قیادت برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔میرے خیال میں جنگ کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ ایک انسان سن تزو کی کتاب *آرٹ آف وار* کی یہ بات بھلا نہیں سکتا کہ "جنگ کا اعلیٰ فن دشمن کو لڑے بغیر زیر کرنا ہے۔”
مصنفہ ایک وکیل، معلمہ اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ انہوں نے ‘A Comparative Analysis of Media & Media Laws in Pakistan’ نامی کتاب لکھی ہے۔ ان سے yasmeenali62@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے