مڈٹرم الیکشن اور مائنس ون، اصل حقیقت کیا؟ قمر الزمان کائرہ نے سب بتا دیا

0
43

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آجکل اسلام آباد میں سیاسی بہت کچھ ہو رہا ہے، میں نے سوچا کسی سیاسی شخصیت کو بلاؤں جو قدآور ،قابل احترام ہو اور جس کے اوپر لوگوں کا اعتماد بھی ہو، کہ یہ بندہ بات صحیح کرے گا چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو،آج ہمارے ساتھ قمر الزمان کائرہ موجود ہیں

مبشر لقمان نے پہلا سوال کرتے ہوئے کہا کہ قمرالزمان کائرہ صاحب کیا کھچڑی پک رہی ہے اسلام آباد میں کہ وزیراعظم عمران خان کو مائنس ون منہ سے کہنا پڑ گیا،یہ نوبت کیوں آ گئی ہے،جس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ جو حکومتیں فلسفے اور نظریئے کے تحت نہیں بنتیں اور وہ جماعتیں جو بنگلوں میں پودے اگائے جاتے ہیں وہ زمین میں نہیں اگتے ،اس جماعت کا پرابلم یہ ہے کہ اس میں جولوگ ہین وہ ایک جماعت کی طرح اکٹھے نہیں اسلئے کہ انکا ماضی نہیں وہ الگ الگ جماعتوں سے آئے اور ایک خاص وقت پر آکر ان کو مخصوص اشارے ملے جو ہمارے ملک میں ملا کرتے ہیں اور ان مخصوص اشاروں کے تحت وہ لوگ اقتدار کے لئے الیکشن جیت کر حکومت انجوائے کرنے کے لئے وہ تبدیلی، کسی سماجی بہتری، انصاف کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کے لئے اکٹھے ہوئے، کس طرح ملک میں طاقتور لوگ اس طرح کے اشارے دیتے ہیں لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں الیکشن سے قبل ایسا ہوتا ہے،چند شاید پرانے چہرے پی ٹی آئی میں نظر آئیں، الیکشن میں جو انہوں نے سلوگن دیا تھا وہ ٹھیک تھا کہ ہم انصاف لائیں گے، قرضے نہیں لیں گے، پٹرول، چینی سستی کریں گے، یہ نعرے لگتے رہے اور یہ کہ پہلے والے لوٹ کر کھا گئے ہیں ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے، لوگوں کو خواب دکھانا تو آسان ہے،لیکن جب اسکی عملی تعبیر کی طرف جائیں تو پھر پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنے مجبور ہیں، پی ٹی آئی نے جتنے نعرے مارے تھے، دعوے کئے تھے وہ سب یوٹرن کا شکار ہو گئے اور وہ لوگ جنہوں نے خواب دیکھے تھے آپ جیسے لوگ اور میرے جیسے اور دیگر سب اس خواب میں گئے، طاقتور لوگ بھی ان کے ساتھ تھے ،اس خواب میں بھی لوگ گئے کہ شاید باقی جماعتیں ڈلیور نہیں کر سکیں، خان صاحب آئیں گے تو ڈلیور کر دیں گے لیکن ایسا نہیں ہے،ایک یہ ہے کہ ڈلیور کر نہیں کر سکتے دوسرا اس پر ماضی کی حکومتوں جن کو مورد الزام ٹھہراتے رہے آج بھی دو سال بعد آپ اپوزیشن لیڈر کے طور پر تقریریں کر رہے ہیں،وہ جماعتیں کی پرمارمنس آپ سے کہیں بہتر تھی ان میں ٹیم ورک بہتر تھا، روزگار ،ریونیو بہتر تھا، آپ کے آنے سے سارے حالات خراب ہوئے، میڈیا کے اوپر بھی قدغنیں لگ گئیں، لوگوں کے خواب ٹوٹے، جن لوگوں نے خان صاحب کو ووٹ دئے، اب اسکا ریورس گیئر شروع ہو گیا، میڈیا بھی کب تک برداشت کرتا، کب تک انتظار کرتا، آخر انہوں نے سچ باتیں دکھانی ہیں،ہم تو اپوزیشن کی جماعتیں ہیں اپنی بات کریں گے لیکن جب نیوٹرل آوازوں نے کہنا شروع کیا تو سوکالڈ جو سلیکٹرز ہیں ان میں بھی ڈیبیٹ شروع ہو گئی کہ اگر آپ کی ٹیم مسلسل فیل ہو رہی ہے اسکی فیلڈنگ، بیٹنگ خراب ہے اور آپس میں وہ لڑ رہے ہیں، ٹیم پر کنٹرول نہیں، پھر صرف ٹیم بری رہ نہیں جاتی، چارپانچ میچ جب ہار جاتے ہیں تو صرف ٹیم پر نہیں پھر سیلکٹرز پر بات آتی ہے، مجھے لگتا یوں ہے کہ پاکستان کے لوگوں کا دباؤ، میڈیا کے ذریعے حکومت، ان کے اتحادیوں پر پڑا ہے، جماعت میں جو اختلافات بڑے ہوئے اور سو کالڈ سیلکٹرز کو بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ اب ڈلیور تو یہ کر ہی‌نہیں رہے، خان صاحب ماضی کے نعروں کی طرح کہ چھوڑیں گے نہیں پکڑ لیں گے، ڈاکو ہیں، چور ہیں ،فلاض ہیں ،لگا رہے ہیں، بھائی بہت ہو گیا،اب آپ اپنی کارکردگی کی بھی بات کریں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آپ کا طعنہ مجھے بڑا لگ رہا ہے، سچی بات یہ ہے کہ میں نے تحریک انصاف کی کھل کر سپورٹ کی ہے،جس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ آپ نے ٹھیک کیا، خواب دیکھ کر کیا، کہ باقی جماعتیں توقع پر پوری نہیں اتریں شاید یہ اتریں ،مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جتنی آزادی مجھے پیپلز پارٹی کےد ور میں تھی اسکی آدھی بھی آج نہیں ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے

قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ یہی بات میں نے کی ہے، لوگ ہماری پرفارمنس دیکھیں گے،لوگوں کو ریلیف دیکھیں گے، تنخواہیں،معیشت، جی ڈی پی اسوقت چلیجنر کتنے بڑے تھے، عالمی بحران ،دہشت گردی تھی،لیکن پبلک میں وہ صورتحال نہیں آج پبلک بھی تنگ ہے،ڈلیور بھی کچھ نہیں،‌آزادی بھی نہین اور پھر ہر وقت کوئی نہ کوئی مافیا کا ذکر ہوتا ہے، خان صاھب جب کوئی نوٹس لیتے ہیں وہ چیز مہنگی ہو جاتی ہے کوئی چیز سستی نہیں ہوتی، آٹے، دوائی، چینی کا نوٹس لیا وہ سب مہنگے ہوئے، سستے نہیں ہوئے، اسی طرح پٹرول کی صورتحال ہوئی، وزیراعظم اس میں فیل ہوئے،جو انکا نعرہ تھا کہ ہم دیانتداری لائیں گے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے وہ بھی نظر نہیں آئی، دو سو ارب ڈالر کو جو کہتے تھے واپس لائیں گے وہ بھی نہیں آیا،پاکستان کے اندر لوگوں پر کیسز ہیں، سپریم کورٹ،ہائی کورٹ ثبوت مانگ رہی ہیں،سالوں سے لوگوں کو جیلوں میں رکھا ہوا ہے، انکے خلاف ریفرنس نہیں بن رہے، پھر بھی الزام دے رہے ہیں کہ مافیا ہے، اپوزیشن پہلے ہی بات کر رہی تھی، اسکو بھی موقع ملا، اسکے نتیجے میں خان صاحب کی اپنی ہی سانس اکھڑی ہے،جس پر خان صاحب کو شک ہوا،میں ؤاضح طور پر کہہ دیتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نہ مائنس ون فارمولے پر یقین رکھتی ہے نہ سوچ سکتی ہے،اسی لئے مائنس ون کا فارمولا ضیاالحق کے دور کا تھا کہ بھٹو، بے نظیر کو ہٹا دو پی پی قابل قبول ہے، مشرف کے دور میں تھا کہ بے نظیر کو ہٹا دو پی پی قبول ہے، پھر بعد میں کہا گیا کہ آصف زرداری کو ہٹا دو تو پی پی قبول ہے، یعنی آمرانہ ادوار کے آمرانہ فارمولا مائنس ون ہے، پی پی مائنس ون کو نہیں مانتی، جمہوریت میں جماعت کی حکومت ہے انکے اتحادی ہیں،لیکن یہ حکومت فیل ہو چکی ہے،اسمیں کوئی شک نہیں ، اسکے ساتھ ہی مداخلت نہیں ہونی چاہئے عوامی نمائندے ہیں، عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو حق ملنا چاہئے،کہ وہ ایوان کے اندر سے ایک جماعت اکثریت میں نہیں ہیں اور کوئی نیا الائنس بنے جو حکومت بنائی اس کو بنانے دی جائے، اگر یہ نہین ہوتا تو پھر نئے الیکشن کی طرف جایا جائے، اس جماعت کی حکومت اگر عمران خان سے نہین چل سکی، تو اسکی جماعت مین جن ناموں کا ذکر سن رہے ہیں جو یونیفارم سلوائے پھرتے ہین ، انکی کوئی حیثیت ہے کہ وہ جماعت کو چلا سکیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ووٹ ہیں 158،اگر میں میینگل صاحب کو شامل کروں تو 162، بجٹ پاس ہوتا ہے تو ووٹ نہیں لے سکتے، اپوزیشن بھی ڈھیر ہو گئی ہے حکومت کے سامنے، جس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے اپوزیشن کا الائنس نہیں ہے، اپوزیشن کو بہتر پرفارمنس کرنا چاہئے تھا، اراکین کو اسمبلی میں لانا چاہئے تھا ، سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اسلئے اپوزیشن ہوتی ہے کیونکہ وہ اقلیت میں ہوتی ہے اگر اپوزیشن کے 49 اور حکومت کے 50 ووٹ ہوتے تو بجٹ پھر بھی پاس ہو جاتا، حکومت کو اپنی جو اخلاقی برتری تھی، پچاس فیصد ووٹ کا جو گولڈن نمبر ہوتا ہے،حکومت وہ اچیو نہین کر سکی، حکومت کے لئے اب زیادہ مشکل ہے، اپوزیشن بھی نمبر اپنا نہیں دے سکی، اپوزیشن کی ساری جماعتوں نے ایک ریزولیشن سائن کیا جس میں انہوں نے بجٹ کو مسترد کیا،اگر وہ جماعتیں اگر حکومت بنانے کے لئے اکٹھی ہو جائیں تو اور لوگ بھی آ سکتے ہیں،پی تی آئی کا پتہ نہیں پھر کیا حال رہے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جب سینیٹ کا الیکشن ہو رہا تھا تو اسوقت آپ کے اپنے پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے آپ کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالا یا نہیں، اگر سینیٹرز نے دھوکہ دیا تو کیا پیپلز پارٹی نے انکے حوالہ سے تحقیقات کیں اور انکو بے نقاب کیا کہ وہ کون لوگ تھے جس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ جو سینیٹ کا الیکشن تھا وہ خان صاحب یا چیئرمین سینیٹ کی محبت میں نہیں تھا وہ ووٹ کیسے پڑے سب جانتے ہیں ، پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بین السطور ہی باتیں کرتے ہیں،کہ ہمارے ان دوستوں کو چاہئے کہ عوام کے اجتماعی شعور کو کام کر دیں، سلیکٹڈ شعور نے کبھی کام نہین کیا،وہاں پر کیا ہوا، کہ خفیہ بیلٹ میں ووٹ زیادہ پڑے تھے،لیکن جب کھل کر ووٹ دینے کا وقت آیا،اسوقت وہ ووٹ نہیں تھے، وزیراعظم کے ووٹ مین ووٹنگ میں اوپن ڈویژن ہوتی ہے، اگر لیول پلینگ فیلڈ دے دیا جائے اور سوکالڈ سلیکٹرز پیھچے ہٹ جائیں تو پھر خان صاحب کی جماعت کا کیا حال ہے اور پھر کون سے اتحادی ان کے ساتھ رہتے ہیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیا آپ مڈٹرم الیکشن دیکھ رہے ہیں،جس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ جی یہ حکومت تو فیل ہو گئی اب اس کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام،یہ اگر جاتی ہے تو پھر نئی حکومت پارلیمان کے اندر سے نہیں بنتی اور اگر مداخلت کر کے کوئی نئی حکومت بنائی گئی کہ کچھ پیپلز پارٹی سے لوگ لئے گئے اور کچھ کہیں سے ،تو یہ اس سے بھی بڑا نقصان ہو گا،جو اسوقت صورتحال ہے اسے بھی بڑا نقصان ہو گا، اگر الائنس کی حکومت آتی ہے اور وہ سسٹم کو بہتری کی طرف لے کر جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ اسکے علاوہ کیا چوائس بچتی ہے، الیکشن کے بغیر پھر کچھ نہیں رہتا.

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آپ کا جو گھر میں حادثہ ہوا، بیٹا اللہ کو پیارا ہو گیا، اللہ انکی مغفرت کرے، سوال یہ ہے کہ اسکے بعد کم ازکم 28 پروگرام کئے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر، گاڑیوں کی ساکھ کے اوپر، ڈیٹا جمع کر کے دیا، کہ 1 لاکھ 10 ہزار لوگ ان گاڑیوں کے حادثات میں مارے گئے، دہشت گردی میں مرنے والے تو سب نظر آ جاتے ہیں لیکن یہ کمرشل دہشت گردی ہمارے سڑکوں پر ہو رہی ہے اس پر ہمیں نظر نہیں آتا، 18 ایم این ایز، وزیروں، تحریک انصاف ،پی پی، ن لیگ کے اراکین نے وعدہ کیا لیکن آج تک اسمبلی میں کوئی پارٹی، حکومت فیصلہ نہیں کر سکی کہ ہم نے یہ سب سٹینڈرڈ گاڑیان کب بند کرنی ہیں، کب امپورٹڈ گاڑیوں کا فراڈ بند کرنا ہے کہ جن میں کٹس پوری نہیں ہوتیں اور لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں،جب عوام یہ دیکھتی ہے کہ تمام سیاستدان عوام کے مسائل کے لئے اکٹھے نہیں ہو سکتے اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں تو پھر معذرت کے ساتھ عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد کم ہونا شروع ہو جاتا ہے

بین الاقوامی فیڈریشن آف پائلٹس اینڈ ائیرٹریفک کنڑولرز طیارہ حادثہ کے ذمہ داروں کو بچانے میدان میں آ گئی

شہباز گل پالپا پر برس پڑے،کہا جب غلطی پکڑی جاتی ہے تو یونین آ جاتی ہے بچانے

وزیراعظم کا عزم ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں ری سٹکچرنگ کرنی ہے،وفاقی وزیر ہوا بازی

860 پائلٹ میں سے 262 ایسے جنہوں نے خود امتحان ہی نہیں دیا،اب کہتے ہیں معاف کرو، وفاقی وزیر ہوا بازی

کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش، مبشر لقمان کی باتیں 100 فیصد سچ ثابت

طیارہ حادثہ، رپورٹ منظر عام پر آ گئی، وہی ہوا جس کا ڈر تھا، سنئے مبشر لقمان کی زبانی اہم انکشاف

جنید جمشید سمیت 1099 لوگوں کی موت کا ذمہ دار کون؟ مبشر لقمان نے ثبوتوں کے ساتھ بھانڈا پھوڑ دیا

اے ٹی سی کی وائس ریکارڈنگ لیک،مگر کیسے؟ پائلٹ کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں کاٹی؟ مبشر لقمان نے اٹھائے اہم سوالات

کراچی میں پی آئی اے طیارے کا حادثہ یا دہشت گردی؟ اہم انکشافات

عمران خان کی حکومت کو کس سے خطرہ ہے؟ اہم انکشافات مبشر لقمان اور مرتضی علی شاہ کی زبانی

بڑے گھر سے خبر آ گئی، کوئی مائنس ون نہیں ہونے والا، سنیے اہم انکشافات مبشر لقمان اور کاشف عباسی کی زبانی

قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ میں آپ کا اور تمام ساتھیوں کا مشکور ہوں، کہ دکھ میں ہمارے لئے دعائین کیں آج بھی دعا کی، اللہ آپ کو جزا دے، آپ کے پروگرام میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں جو بحث ہوئی اسکے نتیجے میں‌ فرق ضرور آیا،اب جو گاڑیاں آرہی ہیں اگر چھوٹی گاڑی سوزوکی بھی آ رہی ہے تو اس میں بھی دو دو ایئر بیگز لگ کر آ رہے ہیں، پریشر بلڈ ہوا ہے، یہ بات درست ہے کہ ڈاکٹر شیرافگن نیازی کا بیٹا ایکسڈینٹ میں فوت ہوا اسوقت ہم نے شور کیا اسمبلی میں بات کی، ہمارے ہاں جو سٹینڈرڈ مینٹین کرنے کا ہے، اداروں کو ریگو لیٹ کرنے والا ہے، انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے والا ہے وہ بھی ایک پارٹی ہے، ہم ایک ایسے سماج میں ہیں جس میں چیزیں آسانی سے مینج ہو جاتی ہیں،کہ جو گاڑیاں پاس کی جاتی ہین کمرشل گاڑیاں، سواریوں والی، مال گاڑیاں، چھوتی سے بڑی، سوزوکی سے لے کر ٹریلر تک یہ ہر سال پاس ہوتے ہیں ٹیکنکلی،لیکن یہ کبھی ورکشاپ میں نہیں گئے،پیسے دے کر سرٹفکیٹ ایشو ہو جاتے ہیں،جو گاڑیاں امپورٹ ہو رہی ہیں،اس میں یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں اپنی گاڑیوں کو جب تک خراب نہین ہو جائیں سالانہ مینٹینس نہیں کرواتے،سرٹفکیٹ کا پراسس ہمارے ہاں نہیں ،دوسرا ہمارے ہاں اپنی گاڑیوں کا بھی مسئلہ ہے، بدقسمتی ہے کہ گاڑیاں چیک کے لئے نہیں بھیجتے، بیگز کے، بریک کے حادثات ہوتے ہیں،ان میں جو سسٹم لگے ہوتے ہیں، بعض اوقات ٹائر کی حالت دیکھیں ،جو ہمار نظام ہے ہم خود بھی دھیان ہیں کرتے،ہمارا ریگولیٹر سسٹم اتنا اچھا نہیں، امپورٹڈ گاڑیاں دس دس سال پرانی آ جاتی ہیں انکے اندار وہاں تو چیک ہوتا رہتا ہے لیکن جب یہاں 5 سال پرانی مزید ہوتی ہے تو اس میں زیادہ مینٹنس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم روٹین مینٹنس نہیں کرواتے،اسکو آگاہی کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اسکی کاسٹ ہوتی ہے،ہمارا یہ ایک پرابلم ہے اگر گاڑی جس طرح سپر فٹ ہونی چاہئے،استعمال کے لئے اس کے لئے کاسٹ ہے اکثرلوگ اس میں دیر نہیں کرتے جو دیر کرتے ہیں وہ کیئر نہیں کرتے.

ڈارک ویب کی پراسرار دنیا، اہم انکشافات ، سنئے مبشر لقمان کی زبانی

Leave a reply