میلاد النبی ﷺ اور ہماری خوشیاں  تحریر: ظفر ڈار

جب دنیا کفر و ضلالت کے عمیق اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، معاشرتی پستی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، خانہ کعبہ میں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی، بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور لوگ معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے تھے۔ الغرض ساری دنیا اخلاقی طور پر بے حالی کا شکار ہو چکی تھی۔ ایسے میں رحمت خداوندی جوش میں آئی اور ربیع الاول کے مہینے میں اس آفتاب کا ظہور ہوا جس نے دنیائے عرب تو کیا عالم آب و گل کو اپنی کرنوں سے منور کر دیا۔ خانہ کعبہ میں پڑے بت منہ کے بل گر پڑے، نوشیروان کے محل کے کنگرے سجدہ ریز ہو گئے اور کلیساؤں میں خوف کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ آمنہ بی بی کے گلشن میں بہار آ گئی اور حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کا اس دنیا میں آنا اللہ تعالٰی کا انسانیت پر سب سے بڑا احسان ہے۔ آپ کو نہ صرف اس دنیا بلکہ پوری کائنات اور سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

آپ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ہی لوگوں نے معجزات دیکھنے شروع کر دیے اور عیسائی اور یہودی عالموں نے پیشن گوئی کر دی کہ نبی آخرالزماں تشریف لا چکے ہیں۔ آپ خود یتیم پیدا ہوئے لیکن دنیا بھر کے یتیموں کے لیے سایہ رحمت بنے۔ 25 برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو عمر میں آپ سے بڑی تھیں۔ 40 برس کی عمر میں جب نبوت کے اعلان کا حکم ہوا تو لوگ آپ کی شرافت اور ایمانداری کے گن گاتے تھے اور صادق و امین کے نام سے جانتے تھے۔

اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو عرب قبائل کے سرداروں اور امراء نے شدید مخالفت کی اور صرف چند لوگ ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اسی شدید مخالفت کے باعث آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور جان سے مارنے کی کئی کوششیں ہوئیں جنہیں قدرت الہیہ نے ناکام کیا اور بالآخر آپ ﷺ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ہوا۔

مدینہ شریف میں آپ نے پہلے مسجد قبا اور بعد ازاں مسجد نبوی کی بنیاد رکھی۔ آپ ﷺ بہترین اخلاق کے مالک ہیں اور آپ کی حیات ظاہری کا ہر پہلو بے مثال ہے۔ آپ شوہر ہیں تو ایسے کہ بیوی کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بھی بٹاتے اور ازواج کے ساتھ حسن سلوک میں لا ثانی۔ آپ باپ ہیں تو اولاد کے ساتھ محبت کو نیا رخ دینے والے، صاحبزادی تشریف لاتیں تو کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور اپنی چادر بچھا کے بٹھاتے۔ دوست ہیں تو ایسے کہ سب صحابی آپ کی خاطر اپنے اور اپنے ماں باپ کو فدا کرنے پر تیار رہتے۔ مہمان نواز ایسے کہ گھر میں جو دستیاب ہوتا، مہمان کے آگے رکھ دیتے۔ اللہ کی رضا میں راضی ہیں تو اس طرح کہ ساری کائنات کے مالک ہیں لیکن کچے گھر میں رہتے ہیں، نہ پہننے کا عالیشان لباس اور نہ کھانے کو پر تعیش کھانے۔ جو کی روٹی ، کھجور، شہد اور دودھ پر گزارا کرنے والے۔۔۔

غریبوں،  یتیموں اور مساکین کی داد رسی میں کوئی مقابل نہیں۔ الغرض چونکہ آپ انسانیت کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے اس لئے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو ہمارے لئے مثال بنا دیا کہ ہم اسوہ حسنہ پر عمل کر کے کامیاب ہو جائیں۔

آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے لئے عملی نمونہ ہے۔ راہ حق میں لوگوں سے پتھر کھائے، جسم اطہر لہو لہان ہو گیا، جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کی آپ حکم دیں تو طائف کے پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا کر تباہ کر دیں لیکن آپ نے بدعا بھی نہیں دی اور فرمایا میرے رب نے مجھے رحمت بنا کے بھیجا۔

قیامت کے دن شفاعت کے والی ہیں لیکن اتنے عبادت گزار کہ اصحاب بھی وہاں تک نہ پہنچ سکیں، اور خوف خدا کا یہ عالم کہ تیز ہوا چلے تو بھی اللہ کے حضور سجدے میں گر جائیں اور رحم طلب کریں۔

گفتگو ایسی کہ ایک ایک لفظ واضح اور صاف تاکہ ہر کسی کو سمجھ میں آ جائے، عفو و درگزر کا یہ عالم کہ جس نے چچا کا کلیجہ چبا لیا تھا اس کو بھی معاف کر دیا۔

گویا انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں ہمارے لئے راہنمائی نہ فرمائی ہو۔

اللہ رب العزت کے اتنے محبوب کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں اور وہ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میری نبی پر درود وسلام بھیجو۔ کہیں رب فرماتا ہے کہ میرے محبوب کی اطاعت کرو، میرے حبیب کے سامنے اونچی آواز میں گفتگو بھی نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اللہ کے پیارے محبوب ﷺ کے امتی ہیں جن کی شفاعت کے انبیاء بھی سوالی ہیں۔ ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے تابع کرتے لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان تعلیمات کو یکسر بھلا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم سے اقوام عالم کی حاکمیت چھن گئی اور دنیا بھر میں رسوائی ہمارا مقدر بن گئی۔

ربیع الاول کے اس مہینے میں ہمیں حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ان تمام اعمال و افعال سے بچنے کی ضرورت ہے جو اسوہ حسنہ کے منافی ہیں۔ ولادت کا جشن منائیں، خوشیاں منائیں لیکن ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے سنت نبوی کا تقدس پامال ہوتا ہو۔

تحریر: ظفر ڈار 

ظفریات

@Zafar Dar 

Comments are closed.