مینار پاکستان واقعہ اور ہمارا معاشرہ : تحریر ملک علی رضا

0
28

پاکستان کے یوم آزادی پر مینار پاکستان لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں ایک خاتون کیساتھ مبینہ طور پر قریب 400 لوگوں نے دست درازی کی جس پر اُس وقت کوئی نوٹس نہ لیا گیا مگر جیسے ہی سوشل میڈیا پر یہ بات وائرل ہوئی تو تمام میڈیا پلیٹ فارمز نے بنا تحقیق کیے بنا سوچے سمجھے اس معاملے کو اُٹھا دیا۔ اس معاملے میں جو کچھ بھی ہوا اس کی پہلے دن سے میں مذمت کرتا ہوں جن لوگوں کو بلوایا گیا اور وہاں ان خاتون کیساتھ جو اپنے دوستوں کے ہمراہ وہاں کچھ ویڈیوز بنانے اور اپنے فینز سے ملنے گئیں تھیں جو کچھ بھی انکے ساتھ کیا گیا انتہائی غیر مناسب اور قابل مذمت اقدام تھا۔
اب جب یہ سب کچھ ہوگیا ہے تو ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ پاکستان غیر محفوظ ہے اور پاکستان میں عورتوں کو کوئی حق نہیں دیا جا رہا انکو زیادتی کا شکار کیا جا رہا ہے طرح طرح کی باتیں ہونے لگ گئیں۔
یاد رہے ایسا کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو اس واقعے میں نجانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس تاک میں ہوتے ہیں کہ پاکستان مخالف بس کچھ میٹریل ملنا چائیے تا کہ اُسے فوری طور پر انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بنایا جائے اور پھر پاکستابن مخالف پروپیگنڈہ کیا جا سکے ۔ اس معاملے کو لیکر بھی ایک منظم سازش پاکستان کیخلاف کی گئی اور جب تک اب یہ معاملہ میڈیاپر چلتا رہے گا یا جب تک کوئی نیا پروپیگنڈہ سامنے نہیں آجاتا تب تک اس معاملے کو ہوا میں اُرایا جاتا رہے گا اور اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں گے ۔ لیکن سوشل میڈیا پر دونوں اطراف سے اس معاملے کے حق اور تنقید میں ہمیشہ کی طرح اس ایشو پر بھی بحث جاری ہے۔
ایسے معاملات ہوتے کیوں ہیں اور ان کو اتنا کیوں اُچھالا جاتا ہے یہ معمہ ابھی تک معمہ ہی ہے لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں جو عام پبلک کی نظر میں سوالیہ نشان ہیں جن میں سب سے پہلے قانون کی بالادستی کا نہ ہونا، لوگوں کو مکمل معلومات کا نہ ہونا ، مرد اور عورت کے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا نجانے کتنے ایسے سوالات ہیں جو لوگوں کے اذہان میں جمع ہیں
اب اس معاملے کے اصل مُحرکات ہیں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنا جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی ٹک ٹاک پر مشہور ہونے کے چکر میں ایک لڑکی نے اپنے شوہر کو مار دیا اور ڈرامہ کر دیا جس سے اس کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔
در اصل ایسے واقعات کا تسلسل کیساتھ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب وہ بُرائیاں کُھل کر سامنے آنے لگی ہیں جو شاید پہلے کم ہوا کرتی تھیں اور رپورٹ بھی کم ہوتی تھیں ، قانون کی بالا دستی اور جلد انصاف کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات میں تسلسل آنے لگ گیا ہے۔ زینب قتل کیس کے بعد اب تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کوئی ایسی خبر نہ سُنی ہو۔
ان سب کی اصل وجہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی چیز کی زیادتی ہے جب کوئی بھی چیز حد سے تجاوز کر جائے تو وہ نقصان دینا شروع کر دیتی ہے پھر چاہے وہ کوئی نشہ ہو ،انٹرنیت کا بے جا استعمال ہو، سوشل میڈیا کا بے ہنگم استعمال ہو یا کچھ بھی ایسا ہو جس سے معاشرے میں تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہوجائیں۔
بحثیت ایک شخص میں اپنے گھر سے لیکر سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز اور دفاتر غرض کہ سڑک پر چلتے پھرتے بھی اپنی اخلاقیات کو نہیں بھولنا چائیے۔او یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب انسان کی تربیت گاہیں انکو اپنی اقدار اور اخلاقیات کا سبق پڑھا کر گھر سے نکالیں گی، والدین کو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانی ہوگی، سکول کے استادوں معاشرے کو بنانے کے لیے حقیقی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہی دو درس گاہیں ہیں جہاں سے معاشرے بنتے بھی ہیں اور بگڑتے بھی ہیں۔
جب انسان اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے تو اسے ہرگز یہ نہیں سمجھنا چائیے کی وہ عقل کُل رکھتا ہے ۔ ہر لمحہ ہر گھڑی سیکھنے کا مرحلہ جاری رہتا ہے اب یہ انسان کی طبیعت پر منحصر ہے کہ وہ کیا سیکھتا ہے۔ ہم سب کو تنقید کا حق ضرور ہے مگر تنقید بھی تب ہوجب تنقید کرنے والوں کے پاس اس مسلے کا حل ہو تا کہ وہ حل بتا کر معاشرے کی بُرائیوں کو دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔ ہمارے معاشرے میں طوئفوں کی بات سب سے سامنے زندہ مثال ہے جو سرعام مکروع دھندہ کرتی ہیں اور معاشرہ انکو بُری نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ کہتی پھرتی ہیں کہ کتنے راز ہیں ہمارے پاس اگر ہم کھول دیں بڑے بڑے پارسا بھی منہ دیکھانے لائق نہ رہیں۔تو پردہ رکھنے سے انکا کچھ نہیں جاتا مگر بڑے بڑے پارسا گریبان کھول کر گھوم رہے ہوتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی بہت بڑے تیس مار خان ہیں۔اس لیے معاشرے کو بنائیں نہ کہ بگاڑ پیدا کیا جائے۔

Leave a reply