مینار پاکستان پر بنت حوا کی عصمت دری ۔۔ اور ہمارے معاشرے میں لنڈے کے دانشور۔۔ تحریر: آصف شاہ خان

0
31

مینار پاکستان پر چند انسانوں کے نام پر دھبوں نے ایک بنتِ حوا کی عصمت دری کی۔ پہلے کی طرح اس مقام پر بھی میں یہی کہوں گا کہ ہمیں پاکستانی قانون میں چند تبدیلیاں لانا ہو گی ورنہ کھبی بچوں کا کھبی بچیوں کی اور کبھی اس قوم کی دوشیزاؤں کا یہی عصمت دری والا رواج جاری رہے گا۔ بہتر حل یہ ہے کہ اس طرح کیسسز کے لئے اسلامی عدالتوں کو فعال بنا دیا جائے۔
آج ہمارے اس مضمون کا موضوع قانون نہیں تو لہذا اس پر پھر کبھی بات کرینگے، آج کا موضوع ہمارا ان لوگوں کو سامنے لانا ہے جو اپنے منطقی دلائل سے ان درندوں کو جو اپنے ہوس کی بھوک مٹانے کے لیے سفید جسموں کا جیون سیاہ کرتے ، ان کو ڈھکے چھپے الفاظ میں جائز قرار دیتے ہیں۔
ہوا یوں کہ مینار پاکستان پر ایک ٹک ٹاکر لڑکی کی سینکڑوں کے اجتماع نے عصمت دری کی۔ ان درندوں کے تلاش میں ادارے لگے ہوئے ہیں اللّٰہ کرے مجرموں کو پکڑ کر سزا ہو جائے۔ لیکن یہ الگ بات ہے اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے کئی لوگوں کی تحریریں میری نظروں کے سامنے سے گزری جو ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ لڑکی فحاشی پھیلا رہی تھی تو اگر ان لوگوں نے عصمت دری کی تو کیا ہوا۔ یاد رکھیں فحاشی پھیلانا اسلام میں جائز نہیں اور ہمیں اپنے بچیوں بہنوں اور ماؤں کو باپردہ رہنے کے تلقین کرنا چاہیے۔ ہر برے کام کے خلاف آواز بھی اٹھانا چاہیے اور برے کام کے خلاف کوشش کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ مفہوم ہے حدیث کا کہ برائی کو ہاتھ سے روک لے، اگر ہاتھ سے نہیں کرسکتے تو منہ سے روک لے اور اگر منہ سے بھی نہیں کرسکتے ہو تو دل میں ہی برا سمجھو اور یہ ایمان کا کمزور درجہِ ہے۔ لیکن اس حدیث کے مفہوم سے ہمیں یہ بات واضح ہے کہ برائی کو روکنا چاہیے لیکن اس مفہوم میں یا آگر ہم کسی اس طرح اور احادیث و آیات کے مفاہیم میں جائے تو کہی ہمیں یہ بات نہیں ملتی ہے کہ کوئی گناہ کر رہا ہو تو اس کو گناہ کے زریعے روک دے۔
کسی بھی جگہ یہ درس ہمیں نہیں ملتا ہے اسلامی تعلیمات میں کہ ایک لڑکی اگر فحاشی پھیلا رہی ہے تو مرد اس کی عصمت دری کرسکتے ہیں یہ کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ اسلام بڑا واضح پیغام دیتا ہے کہ عورت پردہ کرلے اور ساتھ مردوں کو بھی نظر کی حفاظت کا حکم ہے۔ اسلام تو اس معاملے میں اتنا واضح پیغام دیتا ہے کہ مرد کیلئے یہ بھی ممنوع ہے کہ وہ طوائف کے پاس چلا جائے۔ اسلام میں کسی بھی صورت بغیر نکاح کے جسم کو مساء کرنا جائز نہیں۔ پھر آخر وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر لنڈے کے دانشور بنے بیٹھے ہیں کیوں اپنے منطقوں سے اس بات پر بضد ہیں کہ وہ لڑکی فحاشی پھیلا رہی تھی اس لیے یہ ہوا، خدارا اپنے بیانات پر زرا سوچیئے اگر لڑکی فحاشی پھیلا رہی ہو تو کیا مردوں کے پاس اس کی عصمت دری کا لائسنس آجاتا ہے؟؟
اگر ایک عورت بدکار طوائف کیوں نہ ہو تب بھی نہ اسلام، نہ ہمارا ملک اور نہ اخلاقیات ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ اس کے جسم کو نوچ لیا جائے بلکہ جو لوگ اس طرح کے کاموں سپورٹ کر رہے ہیں دراصل یہ ان کے تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ اس تربیت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ان درندوں کا ہوس بے لگام ہوگیا ہے۔
ایک عورت ہو یا مرد غلط راستے پر ہو ہمیں اخلاق کے دائرے میں سمجھانا چاہئے اگر اس سے ٹھیک نہ ہو جائے تو پھر قانون کا سہارا لینا چاہیے لیکن ہر گز یہ حق کسی کے پاس نہیں کہ دوسرے کے گناہ کو ثبوت بنا کر خود گناہ کرنے لگ جائے یا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے کوشش کرلے۔
یہ معاشرے کے مسائل ہے اور اس کے لئے ہم سب کو اپنا حق ادا کرنا ہوگا۔ قوم کی بیٹیاں اسلامی تعلیمات پر عمل کرلے کیونکہ اس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے اور مرد حضرات خدا کا خوف کرلے کسی کے گناہ کو دلیل بنا کر مردوں کو گناہ کرنے کی لائسنس نہیں ملتا ہے۔ اگر ایک لڑکی چاہیے وہ جسم فروشی کیوں نہیں کر رہی ہو کسی مرد کو اسلام یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ اس کی عصمت دری کی جائے۔ اور جو لوگ سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کے سپورٹ میں دلائل پیش کر رہے ہیں یاد رکھیں آپ لوگ دوسروں کو غلط کام کرنے کے لائسنس دے رہے ہو برائے مہربانی گناہ کے زریعہ نہ بنے۔ ماں باپ سے یہ عرض ہے کہ اپنی بچیوں کی حفاظت کرلے اور ان کو اسلام سیکھائے اور اپنے بچوں کے تربیت کا خاص خیال رکھیں کیونکہ آج کسی اور کی بیٹی کی عصمت دری ہو رہی ہو کل خدا نہ کرے اپنے گھروں میں دیکھنا پڑے اور ساتھ ساتھ بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ بھی نظر رکھے کہ فرزند کیا کر رہا ہے۔
اس معاشرے کے ہر شخص کی یہ زمہ داری ہے ۔
اللّٰہ پاکستان کا اور امت مسلمہ کا حامی و ناصر ہو۔ امیں۔

______________________

twitter.com/IbnePakistan1

Leave a reply