مزاح کا اسلامی تصور — عمر یوسف

0
30

انسان کو طبعی طور پر ایسی مشغولیت بھی درکار ہوتی ہے جس سے اس کو فرحت کا احساس ہو اور وہ ذہنی تھکن اور نفسانی بوجھل پن سے چھٹکارا حاصل کرسکے ۔ قدیم زمانے میں جب انسان ابھی تمدن کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اس وقت بھی انسان اپنے معاصرین کے ساتھ زیادہ وقت بات چیت اور گپ شپ میں گزارتا تھا ۔ آج کا انسان بھی گپ شپ کو کام پر ترجیح دیتا ہے ۔ اسی لیے سائنس انسان کے اس رویے کی وضاحت اسی انداز میں کرتی ہے کہ گپ شپ اور طنز و مزاح پسندی کا رویہ انسان کے آبا و اجداد سے genetically منتقل ہوا ہے ۔ خیر بات دوسری طرف چلی گئی اور اصل بات بیچ میں رہ گئی ۔ یعنی طنز و مزاح کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ لیکن اسلامی نکتہ نظر سے مزاح کی حدود و قیود ہیں ۔ اسلام مزاح کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ نبی علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ مزاح پر مبنی گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔ لیکن موجودہ مزاح کی طرح نہ تو اس میں جھوٹ شامل ہوتا نہ ہی مقابل کی تحقیر ہوتی تھی ۔

نبی علیہ السلام نے جو مزاح فرمایا اس کی ایک مثال ذیل میں ہے ۔کہ آپ علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھے کھجوریں تناول فرما رہے تھے کہ کھجوروں کی گٹھلیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھنا شروع کردیں ۔ دیکھا دیکھی صحابہ نے بھی تمام گٹھلیاں حضرت علی رض کے سامنے رکھنا شروع کردیں ۔ جب گٹھلیوں کا ڈھیر حضرت علی کے سامنے لگ گیا تو آپ علیہ السلام نے ہنستے ہوئے ہوچھا علی ساری کھجوریں تم ہی کھاگئے ہو ؟

یہ بات علی رض نے سنی تو فورا جواب دیا یا رسول اللہ میں تو صرف کھجوریں کھاتا رہا ہوں باقی تو گٹھلیوں سمیت ہی کھا گئے ۔ یہ بات سنی تو رسول اللہ ص کھلکھلا کر ہنسنے لگے ۔

اس طرح کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں ۔ جس میں خوش طبعی پر مبنی مزاق بھی ہے اور دوسروں کی تحقیر بھی نہیں ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں جو مزاق کی صورتیں ہیں ان میں یا تو جھوٹ ہے یا فحاشی و عریانی پرمبنی باتیں ہیں اور یا دوسروں کی تحقیر کی جاتی ہے ۔

اور نبی علیہ السلام نے تو یہ واضح فرمادیا کہ جس نے لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولا اس کے لیے ہلاکت ہے ۔

اسی طرح دوسروں کی تحقیر کے حوالے سے فرمایا کہ اگر تمہارا یہ تحقیر پر مبنی کلمہ سمندر میں ڈال دیا جائے تو سمندر کا پانی کڑوا ہوجائے ۔

بحثیت مسلمان سوشل میڈیا کے توسط سے آج کا انسان بہت سارا مواد دیکھتا اور شیئر کرتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان دیکھے کہ وہ جو کررہا ہے وہ اس کے شایان شان بھی ہے یا نہیں ۔

Leave a reply