ملائشیا کانفرنس میں شرکت سے متعلق اردگان کا بیان اور انکا درد امت، باغی سپیشل رپورٹ

اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے ترک صدر رجب طیب اردگان امت کے اتحاد کے داعی کیسے ہو سکتے ہیں؟

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے ملائشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں کی، وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس میں شرکت کرنی تھی تا ہم وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے. اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان نے ملائیشا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو ٹیلی فون کر کے آگاہ بھی کیا اور بعد ازاں ملائشین وزیراعظم آفس نے وزیراعظم عمران خان کے اس اقدام کو سراہا.

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں مسلم ممالک کے رہنماؤں کا اجلاس تو ہوا جس میں جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے مسائل اور دیگر امور پر غور کیا گیا۔ پاکستان ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی، کانفرنس کے بعد ترکی کے صدررجب طیب ایردوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس کانفرنس میں پاکستان اور انڈویشیا کے سربراہان نے بھی شرکت کرنی تھی لیکن سعودی عرب کے دباو کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نےایسا پہلی بار نہیں کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتے چلےآرہے ہیں

ترک صدر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہو ا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو کچھ رقم ضمانت کے طور پر جمع کروا رکھی ہے اور اسی کے نتیجے میں حکومتِ پاکستان نے سعودی عرب کو چند ایک یقین دہانیاں بھی کروائیں تھیں ۔ اس سے بڑھ کر سعودی عرب میں چار ملین کے لگ بھگ پاکستان کے مزدور کام کرتے ہیں جنہیں واپس پاکستان بھیجنے اور ان کی جگہ بنگلہ دیش کے مزدوروں کو نوکریاں دینے کی دہمکی دی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پہلے سے پلان شدہ سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کا اپنا ارادہ بدل لیا۔ سعودی عرب نے پاکستان میں اسٹیٹ بینک میں ضمانت کے طور پر جمع شدہ رقم کو بھی واپس لینے کی دھمکی دی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی ۔

ترکی صدر کے بیان کے بعد سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کو شرکت سے روکنے کے حوالے سے خبروں کی تردید کر دی۔ سعودی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہے۔پاکستان میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کرنے کی خبریں بے بنیاد ہے، پاکستان کو سمٹ میں شرکت سے روکنے کیلئے کسی قسم کی دھمکی دینے کی بھی تردید کرتے ہیں۔

سعودی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہے، دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی گہرے تذویراتی تعلقات ہیں، سعودی عرب اور پاکستان کے مابین بیشترعلاقائی، عالمی بالخصوص امت مسلمہ کے معاملات سے متعلق اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور ساتھ دیا تا کہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکے

پاکستان میں امیرالمومنین سمجھے جانیوالے رجب طیب اردوان کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے ملک کا مفاد پہلے رکھا، اسرائیل کے ساتھ ان کی تجارت ہے، حالانکہ فلسطین پر مسلسل تقاریر کرتے ہیں۔ اسلئے جذباتی نہیں ہونا چاہئے، وزیراعظم عمران خان ملائیشن ہم منصب کو کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بارے آگاہ کر چکے تھے جس کے بعد طیب اردوان کو ایسی کوئی بھی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن لگتا یوں ہے کہ ایک طرف وہ امت کے اجتماعی مسائل کے حل کے لئے کانفرنس کروا رہے ہیں دوسری جانب امت کی تقسیم کے درپے بھی ہیں، ترک صدر پاک سعودی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں، اگر بات واقعی ایسی ہے جیسے ترک صدر نے کی تو یہ پاکستانی قوم کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ ان کے کپتان نے اپنے لاکھوں پاکستانیوں کو ایک فیصلے کے ذریعے بے روزگار ہونے سے بچا لیا، پاکستان نے اپنے مفاد میں فیصلے کرنے ہیں ترکی سے پوچھ کر یا انکی خواہش کے مطابق پاکستان کے فیصلے نہیں ہوں گے، اب امریکی ڈکٹیشن اور ڈومور ختم ہوچکی ،پاکستان میں حقیقی تبدیلی آ چکی.

ترک صدر نے کہا کہ سعودی عرب نے دھمکی دی کہ پاکستان کے مزدوروں کو واپس بھجوایا جائے گا اگر ترک صدر پاکستان کے اتنے ہمدرد ہیں تو وہ اپنے ملک میں 10 لاکھ ملازمتوں کا اعلان کرتے اور پاکستان کو کہتے کہ پاکستانیوں کو ترکی بھیجیں لیکن انہوں نے پاک سعودی تعلقات خراب کرنے اور امت کے دو بڑے ممالک میں تفریق پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی، طیب اردگان نے پاکستان کے حوالہ سے بیان دے کر بیوقوفی کی ہے ،پاکستانی قوم اب انکا چہرہ پہچان چکی ہے کہ وہ پاکستان کے کتنے ہمدرد ہیں. ترک صدررجب طیب اردگان بھی اپنے مفادات کو لے کر فیصلے کر رہے ہیں تو پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے کا حق ہے،

ترکی پاکستان سے زیادہ امت مسلمہ کا خیر خواہ نہیں صرف سوشل میڈیا کے ذریعے جذباتیت گھولی جاتی ہے، حقائق اس کے برعکس ہیں۔اسرائیل جس کے ساتھ پاکستان سمیت دیگر ممالک نے اسے تسلیم ہی نہیں کیا پاکستان سے زیادہ ترکی کی تجارت اسرائیل کے ساتھ ہے۔ ترکی کی پاکستان کے ساتھ حالیہ برسوں میں 45 فیصد تجارت میں کمی ہوئی ہے. ترکی کی اسرائیل کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ دفاعی معاہدے بھی ہیں،

اگرچہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات پہلے جزوی تھے لیکن ترکی نے مارچ 1949ء میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کو بطور ریاست قبول کیا تھا تب سے اسرائیل ترکی کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے ،دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور عسکری شعبوں میں گہرے تعلقات پائے جاتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں دونوں ممالک کئی اہم ایشوز پر مفادات ایک ہونے کی وجہ سے یک جا دکھائی دیتے ہیں ،بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی گئی مگر یہ کشیدگی آخر کار ختم ہوجاتی تھی جیسا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دونوں ایک دوسرے میں اپنے اپنے سفراء متعین کرتے رہتے ہیں۔ مسلمان اور عرب ممالک اکثر ترکی پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے لیکن ترکی نے ایسا نہ کیا،

اردگان کی پارٹی کے حکومت میں آنے کے سال ہی ترکی اور اسرائیل کے مابین (مشروع أنابیب السلام) کے نام سے پانی کا معاہدہ ہواہے جس کے تحت ترکی اسرائیل کو شام کے راستے سالانہ پچاس ملین ٹن پانی سپلائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 1991میں ترکی صدر تورگوت اوزال نے کہا تھا: (جس طرح عرب پٹرول بیچتے ہیں ترکی بھی اپنا پٹرول بیچے گا یعنی پانی کو)۔ لیکن کسے بیچا جائے گا اس بات کو پوشیدہ رکھا گیا یہاں تک کہ2002میں مذکورہ معاہدے پر ترکی اور اسرائیل کے مابین دستخط کر دیئے گئے۔

ترکی کے وزیر خارجہ حکمت سیٹن نے نومبر 1993 کے دورۂ یروشلم کے دوران واضح الفاظ میں اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی حمایت کی۔ اس حقیقت سے کون آنکھیں بند کر سکتا ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ غاصبانہ و ظالمانہ ہے اور عالم اسلام اور دنیا کے بیشتر انصاف پسند ممالک نے بارہا اس قبضے کی مذمت کی ہے۔ تاہم او آئی سی اور موتمر عالم اسلامی کا رکن ہونے کے باوجود ترکی کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بڑھایا،جنوری 1994 میں اسرائیل کے صدر وائز مین نے ترکی کا چار روزہ دورہ کیا تھا۔ اسرائیل میں متعین ترکی سفیر نے اسے یہودیوں کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ قرار دیا تھا۔

ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے 11 جنوری 2017 نے کہا تھا کہ ثقافت، سیاحت اور کھیل کے شعبوں میں ترکی اور اسرائیل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بلا تعطل جاری ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم بھی 2.5 بلین ڈالر سے بڑھ کر 5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ہم دونوں ملکوں کے درمیان آزاد تجارتی سمجھوتے کی تجدید اور اس کے احاطے میں توسیع کے بھی خواہش مند ہیں،اسرائیلی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان آخری چند برسوں میں تجارتی تبادلہ 5.5 ارب ڈالر تک گیا۔ سال 2014 میں ترکی اور اسرائل کے مابین تجارتی تبادلہ 5.5 ارب ڈالر رہا۔ ان میں ترکی کی اسرائیل کو برآمدات 2.7 ارب ڈالر تھیں جب کہ اسرائیل سے درآمدات کی قیمت 2.8 ارب ڈالر رہی۔ سال 2015 میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تبادلہ 4.1 ارب ڈالر رہا۔ ان میں اسرائیل کے لیے ترکی کی برآمدات 2.4 ارب ڈالر جب کہ اسرائیل سے درآمدات کا حجم 1.7 ارب ڈالر تھا۔ اسرائیل سے درآمدات کا حجم کم ہونے کا سبب یہ تھا کہ ترک حکام نے 2015 میں اسرائیلی کمپنیوں کو حکومتی ٹینڈروں میں شریک ہونے سے روک دیا تھا۔سال 2016 میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تبادلہ کم ہو کر 3.9 ارب ڈالر رہا۔ اس میں ترکی کی اسرائیل کو برآمدات 2.6 ارب ڈالر جب کہ اسرائیل سے درآمدات 1.3 ارب ڈالر تھیں۔ سال 2017 میں دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی تبادلہ بڑھ کر 4.3 ارب ڈالر ہو گیا۔ ان میں اسرائیل کے لیے ترکی کی برآمدات کا حجم 2.9 ارب ڈالر جب کہ اسرائیل سے درآمدات کا حجم 1.4 ارب ڈالر تھا۔

1999 میں جب ترکی میں زبردست زلزلہ آیا تھا اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس موقع پر دوسرے دوست ممالک کی طرح اسرائیل نے بھی بھرپور تعاون پیش کیا تھا بلکہ اسرائیل نے باقاعدہ اپنی فوج بھیجی تھی۔ اور ساتھ ہی اسرائیل نے منہدم شدہ گھروں کی جگہ پر بہت سارے گھر اپنے خرچے پر بنوائے جنہیں بعد میں اسرائیلی گاوں سے جانا جانے لگا۔ اسی طرح جب سال 2016 میں اسرائیل کے اندر بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی جس پر قابو پانا ناممکن ہوگیا تو ترکی نے بھی اپنی دوستی کا صلہ دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور پوری ایک فوجی ٹکڑی بھیج دی ساتھ ہی آگ بجھانے والا جیٹ طیارہ بھی روانہ کیاجس پر اسرائیلی وزیر اعظم نے رجب طیب اردگان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

اگست 2019 کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قریبی اور اسلامی دوست ملک ترکی نے ایک بار پھر پاکستان اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ ترکی کا موقف ہے کہ عرب دنیا اسرائیل سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کر چکی ہے اس لئے پاکستان کو بھی اپنے مفادات کے لئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے چاہیئے جس سے پاکستان کے معاشی حالات بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ترکی اس سے قبل بھی پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز پاکستان کو دے چکا ہے۔ لیکن پاکستان اسرائیل کے حوالہ سے اپنے اصولی موقف پر قائم ہے.

جنوری 2015 میں ریڈیو فرانس کی ویب سائٹ نے رپورٹ دی تھی کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگا ن نے کہا ہے کہ اسرائیل کو ترکی جیسے ملک کی ضرورت ہے جبکہ انقرہ کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ترکی کو بھی اسرائیل کی ضرورت ہے۔

ترکی کو آج کی اسلامی ریاست اور جناب رجب طیب ایردوان اور عبداللہ گل کو صلاح دین ایوبی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن طیب اردگان نے ہی جون 2005 میں اسرائیلی صدر شمعون پیریزکو ترکی کی دعوت دی اور دو سال بعد اسرایئلی صدر شمعون پیریز نے اس دعوت قبول کرتے ہوئے نومبر 2007 میں ترکی کا دورہ بھی کیا، تو ترکی کی حکومت نے نہ صرف ان کا بے مثال استقبال کیا بلکہ ان سے ترک پارلیمنٹ کا خطاب بھی کرایا۔ یوں شمعون پیریز اسرائیل کے پہلے ایسے صدر بنے جنہیں کسی اسلامی ملک کی پارلیمنٹ میں قدم رکھنے اوراس سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور ترکی دنیا کا پہلا اسلامی ملک بن گیا جس نے کسی اسرایئلی صدر کو اتنی زیادہ اہمیت دی، ترکی کی اسرائیل کی جانب توجہ کی وجہ سے آج ترکی کے اسرائیل کے ساتھہ تجارتی ،صنعتی ، اور سیاحتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔

ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس کے حوالہ سے پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لئے کام جاری رکھے گا‘ پاکستان کوالالمپور سربراہ اجلاس میں شریک نہیں ہوا‘ امہ میں ممکنہ تقسیم کے ضمن میں بڑے مسلم ممالک کے تحفظات کو دورکرنے کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی مشیر برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ خطے میں او آئی سی، جس میں 57 مسلمان ممالک ممبر ہیں، کا اہم کردار ہے۔ امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، پاکستان کو ملت اسلامیہ کو یکجا کرنے کا کردار ادا کرنا چاہیے، یہی وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے، پاکستان کسی بھی ملک کے ساتھ ذاتی مفادات کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتا، امت مسلمہ کی اجتماعی بہتری اور ہم آہنگی کے لئے پاکستان کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مہاتیر محمد حکومت میں نہیں تھے تو اس کانفرنس کے چار اجلاس پہلے بھی ہو چکے ہیں پاکستان مسلمان بھائیوں کو اکٹھا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا، مشترکہ مفاد، باہمی اتحاد، یکہجتی کو تقویت دینے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گے۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا کے حوالے سے حکومت کا فیصلہ قومی مفاد میں کیا گیا ہے جس کے مثبت اثرات آئیں گے، مہاتیر محمد نے بھی وزیراعظم عمران خان کے بیانیے سے اتفاق کیا ہے، پاکستان کو امت مسلمہ کو جوڑنے کے لئے جو کردار ادا چاہیے وہ کردار ادا کر رہا ہے، ملائیشیاء اور سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ رشتہ ہر مفاد سے مقدم ہے، دونوں ممالک پاکستان کو یکساں قبول کرتے ہیں، پاکستان امت مسلمہ کو جوڑنے کے لئے غیر جانبدار کردار ادا کر کے غلط فہمیوں اور فاصلوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، سعودی عرب نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

Comments are closed.