معجزہ کا انتظار،کیا خوشخبری ملنے والی ہے ؟

0
35

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ 45 سالہ شیر دل پاکستانی، اپنی آنکھوں میں دنیا کی خوفناک اور دوسری بلند ترین چوٹی K2 کو سردیوں میں پہلی دفعہ سر کرنے کا خواب سجائے بیٹھا تھا۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود۔۔وہ دنیا کو کچھ مختلف کر کےدیکھانے کا عزم رکھتا تھا۔یہ مشن اتنا خطرناک تھا کہ دنیا میں آٹھ ہزار میٹر کی کل چودہ پہاڑیوں میں سے صرف یہی چوٹی سردیوں میں سر کرنے والی رہ گئی تھی اور کسی کی جرآت نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماونٹ ایورسٹ 38 سال پہلے سردیوں میں سر ہو چکی تھی۔ یہ شخص جو سکردو کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے بزرگوں کو پہاڑوں پر چیتے کی طرح چڑھتے دیکھتا آ رہا تھا۔ اپنی غربت کو پس پشت ڈال کر ستاروں پر کمند ڈالنے کا ارادہ کر چکا تھا۔اس نے اپنے مالی حالات اور حکومتی بے حسی کو کبھی بھی اپنے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ سر کر چکا تھا

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس نے دنیا کی سب سے خطرناک چوٹی ناگا پربت سب سے پہلے سردیوں میں سر کرنے کا ریکارڈ بنایا، وہ پہلا پاکستانی تھا جس نے ماونٹ ایورسٹ سردیوں میں سر کی۔ یہ پاکستانی جو دوہزار چار میں کے ٹو کو پہلی دفعہ سر کرنے کے بعد اسے اپنے کھیت کی مولی سمجھتا تھا اور بحثیت Porter کئی گنا زیادہ وزن کے ساتھ چلتا تھا کو اپنی مہم سے سات دن پہلے پتا چلا کہ اس کے گھر میں آکر نیپالی کوہ پیما سردیوں میں پہلی دفعہ K2 کو سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔ جس نے اس کے عزم کو اور مضبوط کر دیا اور اس پاکستانی شیر نے 23 جنوری کو بغیر آکسیجن کے سردیوں مین کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ تاکہ ایک نیا عالمی ریکارڈ بنا سکے۔ لیکن دو دن بعد موسم نے اسے یہ کارنامہ سر انجام دینے کی اجازت نہ دی اور اسے چھ ہزار آٹھ سو میٹر کی بلندہ سے واپس آنا پڑا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کوہ پیمائی میں آٹھ ہزار میٹر پر آکسیجن کی کیا اہمیت ہے اس کے بارے میں حیران کن معلومات میں آگے جا کر دوں گا۔ اس شیر دل پاکستانی نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اس نے یہ عالمی ریکارڈ اپنے نام کرنا ہے اس لیئے دو فروری کو اس کی ٹویٹ آئی کے کل صبح یعنی تین جنوری کو صبح چار بجے ہم اپنی مہم کا آغاز کریں گے۔ اس کا نوجوان بیٹا اس کے ساتھ تھا جو آکسیجن کے ساتھ اس چوٹی کو سردیوں میں سر کرنے کا ریکارڈ بنانے جا رہا تھا۔ کیونکہ وہ نوجوان ترین کوہ پیما تھا کسی نے اس عمر میں یہ کارنامہ سر انجام نہیں دیا ۔ لیکن سات ہزار چار سو میٹر کی بلندی پر اس کا Oxygen regulater خراب ہو گیا اور اسے واپس آنا پرا۔پانچ فروری بروز جمعہ رات بارہ بجے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا جو چودہ گھنٹے میں تقریبا دو بجے اس نے K2
کی چوٹی پر پہنچنا تھا۔ لیکن 7823 میٹر کی بلندی پر جا کر سوا سات بجے اس کی Tracking device بند ہو گئی۔ اور اس کے بعد قوم کے اس سپوٹ کا کچھ پتا نہیں ۔ اپنی لوکیشن بتانے کے لیئے وہ ہر گھنٹے بعد Tracking device کو آن کر کے اپنی لوکیشن سیٹلائٹ کو دے دیتے تھے لیکن اس کے بعد ان کی لوکیشن کا کوئی ٹریک نہیں ملا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ میری اس تمہید سے آپ جان گئے ہوں گے کہ میں قوم کے کس سپوت کی بات کر رہا ہوں۔ جی ہاں محمد علی سدپارہ ہر کوئی محمد علی سدپارہ کا ذکر کر رہا ہے، ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ برفانی پہاڑوں کا چیتا،K2 کی خوفناک چٹانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا ہے؟ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے کانوں کو سننے کو ملے کہ محمد علی سدپارہ نے ایک اور عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے اور کے ٹو کے ڈیتھ زون کہلائے جانے والے بوٹل نیک کے علاقے میں اسی گھنٹے سے زیادہ survive کر گیا ہے جہاں کسی کا بیس گھنٹے سے زیادہ سروائیو کرنا مشکل ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ محمد علی سد پارہ کا بیٹا جو اس مہم میں ساتھ تھا اور اکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے بعد واپس آگیا تھا اس کا کہنا ہے کہ اب ڈیڈ باڈی ڈھونڈنے کے لیئے ریسکیوں آپریشن جاری رکھنا چاہیے Sot ایک بیٹا جو خود کے ٹو سر کر چکا ہے اپنے باپ کی لاش ملے بغیر ایسا کیوں کہا رہا ہے اگر آپ انتہائی بلندی اور سرد برفانی طوفان سے خوفزدہ نہیں ہوتےتو آپ نے ہالی وڈ کی مشہور فلم Everest ضرور دیکھی ہو گی۔جو انیس سو چھیانوے میں ماونٹ ایورسٹ پر ہونے والے ایک خوفناک تباہی کے بارے میں ہے۔ Andy heris جو اس مہم کا گائیڈ تھا جس میں کوہ پیماوں کا ایک گروپ دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنے جا رہا تھا۔ کوہ پیماوں کی وہ ٹیم کئی ہزار میٹر کی بلندی پر ایک برفانی طوفان میں پھنس گئی ایسی صورت میں دو قسم کے چیلنچز کا سامنا ہوتا ہے ایک انسان کئی سو کلو میٹر کی سپیڈ سے ہوا میں برف باری کا سامنا کر رہا ہوتا ہے دوسری طرف وہ Hypoxia کا شکار ہو جاتا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ہائی پوکسیا وہ کیفیت ہے جس میں انسان کا دماغ کافی دیرکم آکسیجن ملنےکی وجہ سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے، یا یوں کہہ لیں وقتی طور پر دماغی توازن یعنی بیلنس کھو دیتا ہے۔ اسے چیزیں بھولنا شروع ہو جاتی ہیں اس کے پاس آکسیجن ہونے کے باوجود اسے لگتا ہے کہ آکسیجن ختم ہو گئی ہے۔ مائنس پچاس سینٹی گریڈ میں اسے لگتا ہے کہ بہت گرمی ہے اور وہ اپنے کپڑے اتار دیتا ہے ۔ اتنے کرٹیکل حالات میں جبکہ ایک سو بیس میل کی رفتار سے Snow آپ کو تھپیڑے مار رہی ہوتی ہے۔
ایسی کیفیت اس کی موت کی بڑی وجہ بن جاتی ہے۔اور یہی اینڈی ہیرس کے ساتھ ہوا جس نے اتنی سردی میں اپنی جیکٹ اتار دی اور موت کے منع میں چلا گیا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ محمد علی سد پارہ جو دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند کل چودہ میں سے آٹھ چوٹیا سر کر چکا تھا، جس نے پہلی دفعہ سردیوں میں ماونٹ ایورسٹ سر کر کے عالمی ریکارڈ بنایا تھا کیا کبھی Hypoxia کا شکار ہوا تھا۔؟ اور جب وہ اس کیفیت میں مبتلا ہوتا تھا تو اس کا دماغ اسے کیا کرنے کے لیئے کہتا تھا۔ محمد علی سدپارہ نے Taimoor Salahuddin aka Mooroo کو ان کی ڈاکومینٹری Unsung Heroes میں کیا کہا سنیں انہی کی زبانی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آکسیجن کی مدد سے کوہ پیمائی کرنا بے ایمانی کرنا ہے۔ آٹھ ہزار میٹر آکسیجن کے ساتھ ایسا ہے جیسے 3500 میٹر آکسیجن کے بغیر۔اس چوٹی پر سردیوں میں چلنے والی شدید ہوا کی رفتار بعض اوقات دو سو کلو میٹر سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔2008 میں کے ٹو سر کرنے والے گیارہ کوہ پیما جان بحق ہو گئے تھے یہ حادثہ بوٹک نیک کے پاس پیش آیا تھا۔ جس کی وجہ برفانی تودے تھے 2018 تک کے ٹو کو 367 مرتبہ سر کیا جا چکا تھا اور اس چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں 86 کوہ پیماوں کی موت واقع ہو چکی تھی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ماونٹ ایورسٹ پر اموات کی ریشو چار فیصد جبکہ کے ٹو پر اموات کی ریشو اونتیس فیصد ہے۔ یہ بوٹل نیک کا ہی علاقہ ہے جسے ڈیٹھ زون بھی کہا جاتا ہے یہاں راستے انتہائی دشوار گزار ہیں اور ہر وقت برفانی تودے گرتے رہتے ہیں۔ موت کی اس گھاٹی کی اونچائی آٹھ ہزار میٹر سے شروع ہو جاتی ہے جہاں پر آکسیجن کی کمی انسانی جسم کو مفلوج کر دیتی ہے۔اسی وجہ سے اسے خونخوار چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔ محمد علی سد پارا کی آخری لوکیشن سات ہزار آٹھ سو تئیس آئی ہے جو کے ٹو کے ڈیٹھ زون کہلائے جانے والے بوٹل نیک کے قریب ہے اگر آپ اپنی سکرین پر تصویر کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ کے ٹو کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

Base camp 5000 meter
Camp 1… 6000 meter
Camp 2.. 6760 meter
درمیان میں
Black pyramid
کہلائے جانے والا علاقہ ہے جبکہ
Camp 3.. 7350 meter
Camp 4 shoulder.. 8000 meter
یہاں سے کے ٹو کا ڈیتھ زون
Death zone
شروع ہوتا ہے اور ٹاپ تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ محمد علی سدپارا کا آخری ٹریس کیمپ فور کے پاس موصول ہوا ہے اس کے بعد ان کے واکی ٹاکی، سیٹلائٹ فون اور ٹریکر خاموش ہیں۔میڈیکل سائنس کے مطابق انسانی جسم اکیس سو سے پچیس سو میٹر تک رہنے کے لیئے بنا ہے اس سے زیادہ کے لیئے جسم کو بہت زیادہ محنت کر کے Survive کے قابل بنایا جاتا ہے۔اس سے زیادہ بلندہ پر انسانی جسم کی اکسیجن Saturation
کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور چھ ہزار میٹر پر اکسیجن کی کمی کی وجہ سے جسم پر منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پیپھڑوں سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔نبض تیز جاتی ہے، خون جمنا شروع ہو جاتا ہے اور فالج کا خطرہ ہوتا ہے۔ زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماوں کے پھیپڑوں میں پانی بھر جاتا ہے۔اور انسان کا نضام تنفس بگڑ جاتا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے
اتنی اونچائی پر کوہ پیما دماغی توازن کی خرابی، انکھ کا خراب ہونا ، شدید سر درد، متلی، بد نظمی، helucination یا نظر کا دھوکا وغیرہ جیسے طبی حالات سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس علاقے میں بیس کھنٹے سے زاہد گزارنا انسانی جسم کے لیئے ناممکن ہے لیکن دوہزار آٹھ میں ایک نیپالی کوہ پیما اکسیجن کی مدد سے وہاں نوے گھنٹے گزار چکا ہے۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

اگر آپ نے ابھی تک ہمارا چینل سبسکرائب نہیں کیا ہے تو کر لیں اور بیل آئی کون کو پریس کر لیں تاکہ تازہ تریں معلومات آپ تک پہنچتی رہیں۔

Leave a reply