‏ماڈرن شیر . تحریر:عمالقہ حیدر

0
36

ایک بار شیر اور لومڑی میں کسی بات پہ ٹھن گئی.
لومڑی نے کہا کہ کچھ بھی ہو وہ شیر سے بدلا ضرور لے گی،،
لومڑی نے جنگل میں ایک بیوٹی پارلر کھولا اور جنگل کے بادشاہ شیر سے عاجزی سے استدعا کی.
کہ حضور عالی مقام آپ اپنے مبارک قدم ہمارے بیوٹی پارلر میں رکھیں اور اسکا افتتاح کیجیے ،،
شیر ہنسا اور کہا کہ اے نادان لومڑی میں تو شیر ہوں مجھے بناؤ سنگھار سے کیا لینا دینا ہے.
،، یہ کام تم کسی اور سے کراو ،،
لومڑی نے کہا اے خوبصورتی کے پیکر میرے رحمدل عالیجاہ میں آپکی ریپوٹیشن بہتر بنانا چاہتی ہوں آپکو علم ہی نہیں ہے بادشاہ عالی مرتبت کہ آپکے مخالفوں نے آپکے بارے میں کئی جھوٹے دعوے مشہور کیے ہیں.
،، نت نئی افواہوں کا بازار گرم ہے ،،
آپ کو جنگل میں قدامت پسند اور تنگ نظر بادشاہ کہا جارہا ہے ،،
اور آپکو روشن خیالی کا دشمن سمجھا جا رہا ہے ،،
آپ بیوٹی پارلر کا افتتاح کریں گے تو آپکے متعلق یہ افواہیں دم توڑ دیں گی،،

شیر نے ایک لمحہ لومڑی کی باتوں پہ سوچا اور پھر افتتاح میں آنے کی حامی بھر لی ،،

شیر نے بیوٹی پارلر کا فیتہ کاٹا ،، ریچھ ،، لگڑ بگڑ ،، بھینسے ،، گائے ،، زیبرا ،،ہرن ،، وغیرہ نے خوب تالیاں بجائیں ،،
اسٹیج سیکرٹری بندر تھا پہلے اس نے خوب اچھل اچھل کر داد دی ،،
پھر مائک پہ آ کر اعلان کیا ،،
” شہنشاہ دوراں
آج آپ نے اس محفل میں آکر ثابت کر دیا ھے.
کہ آپ ایک روشن خیال بادشاہ ہیں ،،
بناؤ سنگھار کی اس محفل کی سرپرستی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ احساس جمال سے بہرور ہیں ،،
یوں آپکے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ جو یک طرفہ تھا زائل ہو گیا ہے ،،
شیر کو یہ سب باتیں بڑی عجیب لگ رہی تھی لیکن جب سب نے تالیاں بجانی شروع کیں تو شیر کو بھی اچھا لگنے لگا ،،

تقریب کے بعد لومڑی لہنگا پہن کر سٹیج پہ آئی اور پورے سات بار جھک کر بادشاہ کو سلامی دی ،، اور کہا
” یہ باندی آپکی آمد کا شکریہ ادا کرتی ہے ،،
اب آپکی آمد کی خوشی میں یہ باندی ایک مجرہ پیش کرتی ہے ،،
پھر لومڑی نے جی بھر کر مجرا پیش کیا.
مجرا ایسا تھا کہ لومڑی نے میدان سے دھوئیں اٹھا دئیے ،،
شیر پہلے تو حیرانگی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا پھر اسکو بھی لطف آنے لگا ،،
یہ تقریب صبح تک جاری رہی ،،

دوسرے دن لومڑی ایک ایک جانور کے پاس گئی..
اور کہا کہ اب تو شیر کی چیرہ دستیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،،
شیر سے کوئی شریف جانور نہیں محفوظ ،،
وہ شریف جانورں سے بھی مجرہ کراتا ہے ، پہلے تو اس کمبخت کے ہاتھوں کسی کی جان محفوظ نہ تھیں اب عزتیں بھی نہیں محفوظ ،،
اس طرح کئی جانوروں کے ساتھ میٹنگز طے کرتے کرتے لومڑی نے ایک مشترکہ اتحاد تشکیل دے دیا اس اتحاد میں چیتا بھڑیا سانپ بندر ریچھ سب شامل تھے ،

ایک دن شیر کے غار میں لومڑی حاضر ہوئی.
اور عرض کی ظلِ الہی اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ،،

ظللِ الہی اس وقت ایک ہرن نوش جاں فرمانے کے بعد اونگھ رہا تھا بادشاہ دوراں نے غنودگی کے عالم میں کہا بولو ،،
لومڑی نے دست بستہ کہا.
کہ شہنشاہ ہر دلعزیز کی روشن خیالی کی دھوم تو ہر طرف ہی ہے ،
لیکن چیتے ریچھ ہاتھی وغیرہ نے آپکے خلاف ایک کولیشن تشکیل دی یے ،
خود اس میں آپکے قریبی دوست شامل ہیں.. آپ جانتے ہیں یہ کافی ظالم جانور ہیں ،،
آپکا ان سے بیک وقت ٹکرانا مصلحت نہیں ہے.
میرے پاس ایک ترکیب ہے.
جس پہ عمل کرنے سے انکے غبارے سے ہوا نکالی جا سکتی ہے ،،
شیر نے غصے سے دھاڑتے ہویے کہا تجویذ پیش کیجائے ،

،لومڑی خوشامدی انداز سے بولی..
بادشاہ سلامت آپکے خلاف سارہ پروپیگنڈہ آپکے دانتوں اور ناخن کی وجہ سے ہے ،،
اس پہ شیر غصے سے داڑھا اور کہا تو کیا میں یہ نکلوا دوں ،،
لومڑی بولی..
خدا نہ کرے بادشاہ سلامت.
لیکن اگر آپ صرف پنجوں کے ناخن کٹوا دیں اور سامنے والے تھوڑے سے دانت نکلوا دیں..
تو آپکی طاقت بھی بحال رہے گی اور دشمن کا پروپیگنڈہ بھی مکمل خاک میں مل جایے گا ،

،، شیر نے سوچا کہ کہیں سارے جنگل کے اتحادی ملکر مجھ پہ حملہ نہ کر دیں..

اس نے نہ چاہتے ہویے بھی لومڑی کی یہ تجویز مان لی.
وہ بھول گیا کہ وہ ایک شیر ہے وہ بس ڈانس اور دوسرے محفلوں تک رہنے کا عادی ہو چکا تھا ،،

ایک روز شیر شکار کرنے اپنی غار سے نکلا اور ایک ہرن کے پیچھے کئی کلومیٹر بھاگنے کے بعد اسکو قابو کیا ،،
لیکن جب اسکے جسم میں اپنے ناخن گاڑھنا چاہے تو پنجے میں ناخن نہ ہونے کی وجہ سے پنجہ پھسل گیا..
اس نے جلدی سے دانت ہرن کے گلے میں گاڑھنے کی کوشش کی لیکن یہ حربہ بھی ناکام ہؤا ،،

اس جدوجہد کے دوران ہرنی کو بھی علم ہو گیا…
کہ شیر فارغ ہے یہ بس نام کا شیر ہے..
تو ہرنی نے شیر کو چار پانچ لاتیں اچھی رسید کر لیں اور وہاں سے بھاگ نکلی ،،

شیر نے کئی جانوروں پہ قسمت آزمائی کی لیکن ایک بھی جانور پہ داؤ نہ چلا شام تک بھوک سے برا حال ہو گیا تھا ،،

نڈھال شیر گرتے پڑتے اپنے کچھار پہنچا اور اس وقت امید کی کرن دکھائی دی.
جب اسکو دور سے لومڑی غار میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی…

لومڑی نے بادشاہ سلامت کے آگے نہ سلام پیش کیا نہ عزت دی نہ اسکو ظل الہی یا عالی جاہ کہا نہ ہی شیر کو شہنشاہ دوراں کہا…
،، لومڑی نے طنزیہ انداز سے کہا بھوک تو بہت لگی ہو گی،
شیر نے نقاہت سے کہا.
ہاں بہت زیادہ تم میرے لیے خوراک کا انتظام کر دو،
میں نے تمہارے ہی مشورے پہ ناخن نکلوائے ہیں اور تمہارے ہی کہنے پہ سامنے کے دانت نکلوائے.
اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے.
کہ میرے لیے خوراک کا انتظام کر دو ،،

لومڑی نے یہ سنا تو ایک لمبا قہقہ لگایا اور شیر کو ایک لات رسید کر کے کہا..

او بیوقوف چوپائے

کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا ،،،،،،
ہاں تمہارے ساتھ چونکہ ایک تعلق ہے ،،
لہذا میں تیرے لیے گوشت تو نہیں لیکن گھاس کا انتظام کر سکتی ہوں ،،

یہ سن کر شیر کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا ، اس نے لومڑی پہ اچانک حملہ کیا لیکن لومڑی پہلے سے تیار تھی وہ وہاں سے ہٹی اور شیر جو نڈھال تھا اسی جگہ گر پڑا ،،
کچھ دن بعد لومڑی شیر کے پاس پھر آئی..
شیر بے ہوشی کے عالم سے دو چار تھا.
اس نے لومڑی کو دور سے دیکھا تو چلا کر کہا.

مجھے گھاس کھانا بھی منظور ہے.
اللہ کے لیے کہیں سے میرے لیے گھاس کا انتظام ہی کر دو..
اب تو میں گھاس کے لیے گھومنے کے بھی قابل نہیں رہا ۔۔
لومڑی نے شیر کی یہ بے بسی دیکھی تو لومڑی کی آنکھوں میں جیت کی چمک واضح دکھائی دی لومڑی نے شیر کو طنزیہ کہا..

"گھاس بھی تب ہی مل سکتی ہے جب تم منہ سے میاؤں کی آواز نکالو ”

یہ سن کر شیر کا جی چاہا کہ…
زمین پھٹ جایے اور وہ اس میں دھنس جائے.
لیکن جس کو اپنے وقار سے زیادہ اپنی جان عزیز ہو اسکی زمین میں دھنس جانے کی خواہش پوری نہیں ہؤا کرتی…

چنانچہ شیر نے اپنا جی کڑا کر کے اپنے منہ سے میاؤں کی آواز نکالی اور پھر رحم طلب نظروں سے لومڑی کی طرف دیکھنے لگا ،،

لومڑی نے حقارت سے اسے دیکھا اور کہا یہ میاؤں کی آواز تم نے ٹھیک نہیں نکالی تم کچھ دن ریاضیت کرو پریکٹس کرو جس دن سے تم میاؤں کی صیحح آواز نکالنے میں کامیاب ہو جاؤ تو اس دن سے تم کو گھاس باقاعدگی سے ملنا شروع ہو جائے گی ،،

آخری اطلاعات آنے تک شیر ابھی تک میاؤں میاؤں کی آواز نکالنے میں مصروف ہے…
شیر اب تک میاؤں میاؤں کی اواز نکالنے میں کافی دسترس حاصل کر چکا ہے ،،۔۔

یہ چالاک لومڑی یہود و ہنود ہیں اور شیر مسلم ممالک اور امت مسلمہ ہے.

ان گنت کوتاہیوں اور مختلف ہتھکنڈوں میں پھنس کر امتِ مسلمہ بھول بیٹھی ہے کہ وہ ایک شیر ہے.
سائنس و ٹیکنالوجی, پروڈکشن اور دفاعی امور میں ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور ہم نے بھی عقل و دانش کو سلائے رکھا اور مسلسل سوئے ہوے ہیں.

آج یہ شیر بس میاؤں میاؤں کر رہا ہے ،،….
بقول علامہ اقبال

تھے تو آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو,
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو,

Leave a reply