مولانا اسعد محمود، مشرف دور اور ایم ایم اے — نعمان سلطان

0
38

14 اگست کی مناسبت سے منعقد کی گئی ایک تقریب جس میں رنگا رنگ موسیقی کے پروگرام پیش کئے گئے، اس تقریب میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود کی شمولیت اور ناچ گانے کے دوران تقریب کا بائیکاٹ نہ کرنے کی وجہ سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، پاکستان میں "مفتی قوی” جیسے بھی افراد موجود ہیں لیکن ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں وہ جیسے اندر سے ہیں ویسا ہی خود کو بیان کرتے ہیں، لیکن ایسی جماعت جو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کر رہی ہو اور تحریک انصاف کے جلسے جلوسوں کے دوران موسیقی کے استعمال اور عورتوں کی بے پردگی پر شدید تنقید کرتی ہو، اس کے مولانا فضل الرحمن کے بعد متوقع سربراہ کی طرف ایسی حرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے پیش نظر اسلام نہیں اسلام آباد ہے اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے وہ ہر حد سے گزر سکتے ہیں۔

ویسے مذہبی جماعتوں کے اکابرین کی طرف سے ہونے والی یہ پہلی منافقت نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ان کے قول و فعل کا تضاد سامنے آیا لیکن افسوس ہماری کمزور یاداشت یا اندھی عقیدت کہ ہم پھر دوبارہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ان نام نہاد مذہبی اکابرین سے دھوکہ کھاتے ہیں، حالانکہ پرویز مشرف کے دور میں تمام مذہبی سیاسی جماعتیں لوگوں کے سامنے بے نقاب ہو چکی تھی، لگے ہاتھوں آپ کو تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے اکابرین کا وہ واقعہ بھی بتا دیتے ہیں تا کہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ کیسے یہ لوگ ہمیں اسلام کے نام پر لوٹ رہے ہیں ۔

پاکستان میں مسلکی بنیاد پر تنازعات اپنے عروج پر تھے، ہر شخص کی نظر میں اس کا مسلک ٹھیک اور ان کے مسلکی عالم حق تھے، اہلحدیث، سنی(بریلوی) اور دیگر چھوٹے مسالک کے علماء ایک حدسے زیادہ اختلافات کو بڑھاوا نہیں دیتے تھے، جبکہ شیعہ اور دیوبندی مسالک میں نظریاتی اختلاف عروج پر پہنچا ہوا تھا اور بات منبر و محراب سے بڑھ کر لڑائی جھگڑوں اور مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے تک پہنچ گئی تھی، البتہ ایک شرعی مسئلے میں تمام مسالک کا اتفاق تھا کہ "مخالف فرقے کے امام کی اقتدا میں نماز نہیں ہوتی ” ۔

علماء کی بات لوگوں کی نظروں میں حرف آخر تھی اور علماء کی منبر پر کئی گئی تقریروں کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان کے فیصلے ہوتے تھے، ان حالات میں اہل دانش کا خیال تھا کہ لوگوں کو اس اندھی تقلید سے نجات دلانا ناممکن ہے، ایسے عالم میں مسند اقتدار پرویز مشرف صاحب نے سنبھالی اور ملک میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا، انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں دینی جماعتوں نے مل کر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ۔

علماء کرام نے خطبات میں عوام سے درخواست کرنا شروع کر دی کہ ووٹ ایک امانت ہے اور امانت کو اس کے اہل (حق دار) کے حوالے کرنا آپ کا شرعی فرض ہے چنانچہ انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دے کر کامیاب کریں تا کہ وہ کامیاب ہو کر ملک میں اسلامی نظام نافذ کریں، اس سارے عمل کے دوران تمام علماء کرام نے متفقہ طور پر منبر و محراب کو سیاسی جماعتوں کی ترویج کے لئے استعمال کیا اور انتخابات کو حق اور باطل کا معرکہ بنا دیا۔

جب انتخابی نتائج کا اعلان ہوا تو متحدہ مجلس عمل کو بھی معقول تعداد میں قومی اسمبلی میں نمائندگی ملی جبکہ صوبہ سرحد (خیبر پختون خواہ) میں ان کی حکومت بنی، حکومت میں آنے کے بعد متحدہ مجلس عمل کے بارے میں اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہونے لگی کہ "متحدہ مجلس عمل کے اجلاس کے دوران نماز کا وقت ہونے پر تمام اکابرین نے فلاں(ہر نماز میں امام بدلتا تھا) کی امامت نماز ادا کی "، میں نے جب اپنے مقامی عالم دین (مفتی صاحب) سے دریافت کیا کہ آپ لوگ کچھ عرصہ پہلے تک کہتے تھے کہ دوسرے فرقے کے امام کی اقتدا میں نماز نہیں ہوتی تو اب یہ جو تمام فرقوں کے اکابرین ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اخبارات میں خود کہہ کر یہ خبریں لگوا رہے ہیں کیا یہ منافقت نہیں۔

تو انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا یہ مفاد پرست ہوتے ہیں، تو میں نے انہیں کہا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ یہ سیاسی لوگ مفاد پرست ہوتے ہیں تو آپ نے انتخابات سے پہلے نماز جمعہ کے اجتماعات میں دین بیان کرنے کے بجائے ان لوگوں کی حمایت میں تقریریں کیوں کیں اور لوگوں کو کیوں کہا کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے انہیں ووٹ دو، وہ دن اور آج کا دن مفتی صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے اور دوبارہ کلام ہی نہیں کیا ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں احکامات دین پر عمل کرنا چاہیے لیکن ان نام نہاد علماء کے بہکاوے میں آ کر لوگوں کے ایمان کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ہم دنیا میں اللہ کی بندگی کے لئے آئے ہیں اللہ کی مخلوق کا ایمان چیک کرنے کے لئے نہیں، اس لئے آج کے دور میں بہترین شخص وہ ہے جس نے اس دور فتن میں اپنے ایمان کو سلامت رکھا، باقی یہ نام نہاد علماء اس یقین پر گناہ کرتے رہتے ہیں کہ اللہ سے توبہ کرو تو اللہ معاف کر دیتا ہے پر وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا انہیں آخری وقت میں توبہ کرنے کی مہلت ملے گی بھی یا نہیں ۔

Leave a reply