موٹروے زیادتی کیس، مولانا طارق جمیل کا بیان، سوشل میڈیا پر بحث جاری

0
34

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے معروف عالم دین، تبلیغی جماعت کے جید رہنما مولانا طارق جمیل کا ایک ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے

مولانا طارق جمیل نے موٹر وے واقعے کو بے حد شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور کہا کہ میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں ایسے واقعات میں جو مجرم ہوں، انہیں ہر ممکن سخت سے سخت سزا دی جائے۔ میری زبان لڑکھڑا رہی ہے، عدلیہ اور قانون کو خدا کا واسطہ ہے، بدل دیں۔ پاکستان پر 150 سال پرانا قانون نافذ ہے جو انگریز بنا کر گیا تھا۔

مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی قومیں تباہ ہوئیں اس کا سبب ان کی معاشی تنگی ، اسباب کی قلت نہیں تھا ،قرآن کہتا ہے کہ ہر قوم اس وقت تباہ ہوئی جب وہ بے عمل ہوئے ، بد عمل ہوئے ، بد اخلاق ہوئے تو اللہ نے ان کو پکڑا اور وہ قومیں اس وقت اپنے عروج پر تھیں ۔اس وقت جو واقعہ ہواہے ہماری بد اخلاقی اور پستی کی انتہا ہے ، اس سے آگے بڑھ کر کوئی پستی ، بد اخلاقی اور بے حیائی نہیں ہے ، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں اس کی مذمت کیلئے کیا الفاظ استعمال کروں اور قوم کی اخلاقی پستی کیلئے کونسا نوحہ لکھوں کہ ہم ہرلحاظ سے اخلاقی طور پر کتنے پست ہو چکے ہیں ، ہمارے بھی زوال کا سبب اسباب کی کمی نہیں ہے ، ہم نیوکلیئر پاور ہیں ، ہماری پوری امت کی پستی کا سبب صرف بد اخلاقی ،بے حیائی اور نافرمانی ہے ،جب عروج آتا ہے تو صفات پر آتا ہے اور زوال آتا ہے تو وہ بد اخلاقی اور اعما ل کی پستی پر آتاہے

مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کیلئے بنایا گیا ہے لیکن حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ مل کر یہ قانون تبدیل کرے جو خود ایک ظلم ہے۔ انصاف کیلئے عدالت کارخ کرنے والے مظلوم کا سب کچھ بک جاتا ہے اور وہ پھر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ بے گناہی کا پتہ 10 سال بعد چلتا ہے۔

مولانا طارق جمیل کا مزید کہنا تھا کہ چنگیزبہت ظالم تھا جس نے اپنے دور کی سب سے بڑی حکومت بنائی، دنیا کے 22 فیصد حصے پر قابض شخص کا کوئی مذہب نہیں تھا اور وہ سورج کی پوجا کیا کرتا تھا۔ چنگیز خان کے قانون میں زنا ، جھوٹ اور چوری کی سزا قتل تھی۔ وہ ایسا غیر مسلم تھا جس نے قانون کی حکمرانی کیلئے زبردست نظام بنایا جبکہ ہم مسلمان ہیں۔

مولانا طارق جمیل کا مزید کہنا تھا کہ والدین کو سب سے پہلی درسگاہ قرار دیاجاتا ہے جو آج خود بچوں کی تربیت سے لاعلم ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ بچے اسکول جائیں اور پڑھیں اور پھر واپس آ کر ٹیوشن میں تعلیم حاصل کریں۔ تعلیمی ادارے کاروباری ادارے بن چکے ہیں جن سے تربیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب آگ اور پٹرول اکٹھے ہوں تو آگ نہ لگنا کیسے ممکن ہوگا؟ مخلوط تعلیم نے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دیا جس میں کوئی شک کی بات نہیں۔ میں نے خود کالج کی زندگی گزاری ہے اور پھر میں اللہ کے راستے پر چلا۔ والدین کو چاہئے کہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی تربیت اور حفاظت خود کریں۔

https://twitter.com/SyedaSays__/status/1306988866453241856

مولانا طارق جمیل کا مزید کہنا تھا کہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ رات کو کوئی اکیلے سفر نہ کرے ، اگر مرد بھی ہے تو اکیلے سفر نہ کریں ، سکول اور کالج والوں سے کہتاہوں کہ بچے اور بچیوں کو اخلاق کا سبق دیں ، علماء سے کہتا ہوں کہ فرقہ واریت اور نفرت انگیز بیانات چھوڑ کر اچھے اخلاق ، حیاءاور پاک دامنی کے خطبات اپنے ممبر سے جاری کریں ،ہمارا میڈیا وہ اس میں بہت کام کر سکتاہے کہ وہ قرآن کی تفسیر اور نبی پاک ﷺ کی سیرت کو مختلف پروگراموں میں بیان کریں ، اس کا بہت اثر پڑے گا ، اس واقعہ کی مذمت کرنے کیلئے کوئی الفاظ نہیں ہے ۔کوئی حکومت ایسی نہیں ہے جو سچ کو نافذ کردے اور پاک دامنی کو نافذ کردے ، یہ انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے ، ہم اپنی زندگی میں حیاء، پاک دامنی ، رزق حلال ، دیانت داری کو اختیارکرنا ہو گا، پردے کو رواج دیں ، اللہ نے اس میں بڑی حکمت رکھی ہے ، اللہ ہمیں سچائی اور اچھا اخلاق نصیب فرمائے ۔

مولانا طارق جمیل کے بیان پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے،سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ مولانا طارق جمیل کے معاشرے میں مرد/عورت کی تربیت پر 14 منٹ کےبیان میں سے30 سیکنڈ کی بات اچک کر غلط رنگ دینا قابلِ مذمت ہے

ایک صارف قیصر محمود کا کہنا تھا کہ مولانا طارق جمیل کی ویڈیو میں سے 27 سیکنڈز کا کلپ نکال کر اس پر تبصرہ کرنا انٹیلیکچوئل کرپشن ہے۔ جیسے کرپشن روکنے کی بات کرو تو کرپٹ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، جھوٹ روکنے کی بات پر جھوٹے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، ایسے ہی بے حیائی پر بات کرنے سے بے حیا لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں۔

ایک صارف محسن رضا کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہر شخص اور طبقہ کے لوگوں کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی ہے اگر نہیں ہے تو کسی عالم کو کیونکہ جیسے ہی کوئی عالم کسی بھی معاملہ میں اپنی رائے دے تو سب کو آگ لگ جاتی ہے.
مولانا طارق جمیل نے اپنی رائے دی ہے، آپ ان سے اتفاق نہ کریں لیکن ان سے انکی رائے کا حق کیسے چھین سکتے ہیں

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ مولانا طارق جمیل نے کیا غلط کہا جو سارے لبرلز اور لفافے انکے پیچھے پڑ گئے ،مولانا طارق جمیل نے اپنے پاس سے کچھ نہیں کہا بےحیائی اور فحاشی کے بارے میں جو اللہ کا حکم ہے وہی بتایا اورجہاں اللہ کا حکم ہو وہاں کسی کی کیا مجال کے بکواس کرے

Leave a reply