کوہ کارونجھر کا سونا سندھ کی تقدیر:سُنا ہے پھرلوٹ مارکا بازارگرم ہے:کون ڈال رہا ہے ڈاکہ:خبریں آنے لگیں

0
98

تھرپارکر :کوہ کارونجھر کا سونا سندھ کی تقدیر:سُنا ہے پھرلوٹ مارکا بازارگرم ہے:کون ڈال رہا ہے ڈاکہ:خبریں آنے لگیں ،اطلاعات کےمطابق پچھلے سالوں کی طرح ان دنوں پر سوشل میڈیا پر سندھ کی خوبصورت کارونجھر پہاڑیوں کا ذکر چھڑا ہوا ہے لیکن اس کا تذکرہ اس حسین پہاڑی سلسلے کو بچانے کے لیے ہو رہا ہے۔

 

سندھ کی ان قیمتی پہاڑیون کو بچانے کےلیے پچھلی کئی دہائیوں سے آواز بلند ہوتی آرہی ہے ،پچھلے دو تین سال سے تو ہرآنے والے لمحہ اس قیمتی اثاثے کوچانے کے لیے آواز بن کرسامنے آرہا ہے ، 2019 میں بڑے زوروشور سے آوازیں بلند ہورہی تھیں‌کہ کانجھرو کی پہاڑیوں‌ کو کان کنی کے نام پر لوٹا جارہا ہے

پھر یہی آواز 2020 کے آخری دنوں میں بلند ہوئی لیکن کسی نے کان تک نہیں دھرا اورپچھلے چند دنوں سے پھر کانجھروکی پہاڑیاں آواز دے رہی ہیں کہ مجھے بچا لیں‌ ورنہ بڑے بڑے مجھے کھا جائیں‌ گے

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کچھ کمپنیاں اور لوگ تھرپارکر کے علاقے میں واقع ان خوبصورت پہاڑیوں کو اپنی منافع خوری کا نشانہ بنا کر تباہ و برباد کر رہے ہیں۔

کارونجھر کی پہاڑیاں قریباً 23 کلومیٹر طویل سلسلے کا حصہ ہیں اور ان کی چوٹی کی اونچائی 305 میٹر تک ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نہایت خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے جو ہزار سالہ تہذیب کے ارتقا کا حاصل ہے

 

سندھی زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے صحرائے تھر کو فطرت کا عجائب گھر قرار دیا تھا جبکہ سندھی زبان کی شاعری میں کارونجھر پہاڑی کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا۔کارونجھر اس لیے بھی اہم ہےکہ یہاں پہاڑ، رن کچھ اور ریت والے تھر کا سنگم ہوتا ہے۔

اس کےعلاوہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے روپلو کولہی کا تعلق بھی کارونجھر سے تھا،جنھیں ان کے ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کا مقدمہ چلا کر 22 اگست 1858 کو پھانسی دے دی گئی۔

کارونجھر لال رنگ کے گرینٹ پتھروں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ ہے، جو ویسے تو لال نظر آتا ہے مگر مقامی لوگوں کے مطابق یہاں سفید اور کالے پتھر کے علاوہ پانچ رنگوں کے پتھر ہیں۔

یہ رنگ برنگے گرینٹ کے پتھر کمروں کی ٹائلز اور عمارت سازی میں کام آتے ہیں، یہاں سے نکلنے والا پتھر پاکستان کے دیگر علاقوں سے نکلنے والے گرینٹ پتھروں سے قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

 

کارونجھر سے غیر قانونی پتھر نکالنے کے خالاف نگر پارکر میں شہریوں نے احتجاج بھی کیا۔پچھلے چند سالوں سے جاری قحط سالی کے بعد سندھ حکومت نے 30 سے زائد چھوٹے بڑے ڈیم تھر میں تعمیر کروائے مگر پتھروں کی بے دریغ کٹائی کے بعد شدید بارشوں کے باوجود کارونجھر کی ندیوں کے پانی سے کوئی بھی ڈیم نہ بھر سکا۔

سندھ کے ضلع تھر پارکر میں ، رن کچھھ کے شمالی کنارے پر23 کلومیٹر پر پھیلا ہوا اور 307 میٹر لمبا پہاڑی سلسلہ موجود ہے ، جسے کارونجھر کہا جاتا ہے۔ ضلعہ تھر پارکر میں ان پہاڑیوں کے علاوہ کہیں بھی کوئی پہاڑ یا پہاڑی سلسلہ وجود نہیں رکھتا۔

کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ زیادہ تر گرینائٹ کے پتھروں پر مشتمل ہے۔

یہ پہاڑی سلسلہ پورے تھر ریگستان سے الگ ہے ، اس سلسلے کی پہاڑیاں مشرق کی طرف بڑہتی جاتی ہیں۔
ساون کے موسم میں کارونجھر کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں، معمول سے زیادہ سیاح امڈ آتے ہیں اور مقامی معیشت کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔

ساون کے موسم میں جب بارشیں پڑتی ہیں تب کارونجھر سے بارش کا پانی پہاڑ سے نہروں کی شکل میں بہتا ہے ۔ ان نہروں کی تعداد بیس ہے۔ ان نہروں کا پانی کارونجھر ڈیم میں اکھٹا ہوتا ہے۔ اسی پانی سے ، کارونجھر کی چھاؤ میں واقع ننگر پارکر شہر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔

ان نہروں کے نام کچھ یوں ہیں” بھٹیانی ، ماؤ ، گوردڑو ، راناسر، سکھ پور ، گھٹیانی ، مدن واہ ، موندرو ، بھوڈے سر ، لول رائی ، دراہ ، پران واہ وغیرہ ہیں۔

یہاں کے مقامی لوگ کارونجھر کی معاشی اہمیت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ” کارونجھر روزانہ ایک سو کلو سونا پئدا کرتا ہے”۔
کارونجھر کی پہاڑیوں پر زیادہ تر کیکر ، چندن اور نیم کے درخت پائے جاتے ہیں۔

اس پہاڑی سلسلہ میں چنکارا ہرن ، گیدڑ اور نیل گائے جیسے جانور پائے جاتے ہیں جو پورے تھر میں کہیں نہیں پائے جاتے۔
سلسلہ کارونجھر کی غاریں بہت گہری ہیں ، ان غاروں کے اندر ہندو مذھب کی مورتیاں اور کئی اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں کنگ کوبرا بھی شامل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ کئی اقسام کی بوٹیوں کا بھی مسکن ہے۔

کارونجھر مقدس مذہبی آستانوں کا بھی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہاں اسلام، ہندومت اور جین مت مذاہب کے مقدس آستانے ہیں جن میں قدیمی بھوڈیسر تالاب سے متصل 700 سال پرانی مسجد اور تھوڑے فاصلے پر ایک قدیم جین مت کا مندر ہے۔

اس کے علاوہ ہندو مت کے مقدس ترین قدیمی مندر ساڑدھڑو دھام، انچل ایشور یعنی ایشور کا آنچل، تروٹ جو تھلو، پرانہ آدھی گام، گئو مکھی جیسے آستانے بھی کارونجھر پہاڑی میں واقعے ہیں۔

یہاں پر ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ساردھڑو بھی ہے ۔ ساردھڑو یہاں کی مقامی ہندو کمیونٹی میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔اس پہاڑی سلسلے میں کئی تاریخی مقامات ہیں جن میں ، بھوڈے سر کی مسجد بھی شامل ہے ، جس کو سلطان محمود بیگڑی نے بنوایا تھا۔

کارونجھر کا ذکر کئی سندھی اور گجراتی شاعروں نے کیا ہے۔

یہاں کی مقامی لوک داستان ، سڈونت سارنگا اور ہوتھل پری ، جام اوڈھو میں بھی کثرت سے کارونجھر کا ذکر ملتا ہے۔

کارونجھر جبل محض پہاڑیاں نہیں بلکہ یہ قیمتی معدنیات کا وہ خزانہ ہیں جو سندھ کے ضلع تھرپارکرکے علاقے نگرپارکر کے جنوب مغرب میں پھیلی  ہوئی ہیں ، ان کی قدرتی ساخت اور تراش خراش بہت منفرد اورانتہائی خوبصورت  ہے ۔ سولہ میل تک پھیلے کوہ کارونجھر کو کینرو بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں قدیم آستانوں کے  ساتھ خوب صورت  قدرتی جھرنے بھی بہتے  ہیں، بارش کے بعد یہ جھرنے  بھرپور روانی کے ساتھ ان قیمتی پتھروں کے درمیان سے بہہ نکلتے ہیں پتھروں کی ان سنہری اونچی نیچی چوٹیوں میں اس قیمتی گرینائٹ کا خزانہ پوشیدہ ہے جس کی قیمت اور مالیت کا تعین انصاف پسندی سے کیا جائے تو پورے سندھ کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔

گرینائٹ کی مائننگ پر نہ صرف سندھ واسی سراپا احتجاج ہیں بلکہ سماجی حلقوں میں بھی اس پر تشویش پائی جاتی ہے ۔ماحولیات محبت کا کہنا ہے یہ تھر کا صحرا نہیں بلکہ گلستان ہے اگر اس کی توڑ پھوڑ اسی طرح جاری رہی تو پھر اس قدرتی ورثے کو کون دیکھنےآئے گا ۔

سرمائی ، سنہرے دلکش رنگ  پتھروں کی یہ کہکشاں تھریوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل ہے شاید اسی لیے وہ اس کا کٹاؤ اور اس کی توڑ پھوڑ کسی صورت نہیں برداشت کر سکتے ، کجا کو وہ کسی اورکو اس کی توڑ پھوڑ اور ترسیل کی اجازت دیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کوہ کارونجھر سندھ کا سونا ہے اور کوئی ہمارے سونے کی ادائیگی نہیں کرے گا۔ اس لیے ہم سندھ کے  سونے کا کاروبار نہیں کریں گے اور نہ ہی ہونے دیں گے ۔ تھریوں کا کہنا ہے کہ ہمارے کارونجھر پہاڑ کو کاٹنا ایسا ہے جیسے کسی ماں کے بیٹے کو قتل کردیا جائے ۔

لیکن ایک دوسری حقیقت یہ ہے کسی بھی  زمین  کے معدنی وسائل اس کے باسیوں کی  ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں ان سے محبت ضرور کی جائے لیکن اگر ان پہاڑیوں کی ڈرلنگ اور مائننگ سے تھر واسیوں کے لیے روزگار اور خوشحالی کے دروازے کھل رہے ہیں تو پھر اس معاملے کو سرکاری اور عوامی سطح پر خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹانا چاہیے تاکہ ان قیمتی پتھروں کی تجارت کے براہ راست فوائد سندھ کے باسیوں تک بھی پہنچ سکیں  ۔

Leave a reply