مزید دیکھیں

مقبول

اسرائیل نے 676 فلسطینی شہداء کی لاشیں بھی روک لیں

اسرائیلی قابض فوج نے 676 فلسطینی شہداء کی لاشیں...

اسلام آباد ایئر پورٹ بھکاریوں کے نرغے میں

اسلام آباد: ملک میں پیشہ ور گداگروں کی...

بھارت سے 50 ہزار ٹن چینی درآمد

اسلام آباد:موجودہ حکومت کی جانب سے بھارت سے 50...

ریاستی اداروں کے خلاف مہم،بنی گالہ سے پی ٹی آئی کارکن گرفتار

اسلام آباد: ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل اسلام...

موت کے بعد تدفین یا چتا، کون سا راستہ بہتر ہے؟

موت کے بعد تدفین یا چتا، کون سا راستہ بہتر ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے نہ کوئی فرد بچ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم، ہر مذہب میں موت کے بعد کے مراحل اور آخری رسومات کا ایک خاص طریقہ رائج ہے۔ اسلام میں میت کو دفنانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ہندو مت میں جلانے کی رسم کو مقدس مانا جاتا ہے۔ لیکن اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو ہندو مت میں مردہ سوزی کا عمل ایک بھیانک اور تکلیف دہ حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔ خاص طور پر بنارس کے مانیکرنیکا گھاٹ پر ہونے والے مناظر انسان کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

اسلام نے تدفین کو نہ صرف ایک فطری عمل قرار دیا بلکہ اسے انسانی عظمت اور پاکیزگی کے عین مطابق بھی قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہابیل اور قابیل کے واقعے میں اللہ تعالی نے تدفین کی ہدایت کو واضح فرمایا، "پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے”(سور المائدہ 31)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ انسانی لاش کو مٹی میں دفنانا ایک الہی حکم اور فطری طریقہ ہے۔

میت کو دفنانے کے کئی فوائد اور حکمتیں ہیں، سب سے پہلے یہ طریقہ پاکیزگی اور وقار کو یقینی بناتا ہے۔ میت کو غسل دیا جاتا ہے، کفن پہنایا جاتا ہے اور انتہائی احترام کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ دوسرے تدفین ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کے عین مطابق ہے کیونکہ دفنانے سے زمین میں میت کے اجزا تحلیل ہو جاتے ہیں اور فطرت میں کوئی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ مزید برآں قبر کی زندگی برزخ کی ایک شکل ہے، جہاں میت کے اعمال کے مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں بارہا ذکر ہے کہ"اسی(زمین)سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں واپس لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ نکالیں گے”( سور طہ 55)۔

ہندو مت میں میت کو جلانے کی رسم صدیوں سے جاری ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ آگ میں جلنے سے روح مکتی (نجات) پا لیتی ہے اور گنگا میں راکھ بہانے سے پاپ دُھل جاتے ہیں۔ خاص طور پر بنارس کا مانیکرنیکا گھاٹ ہندوؤں کے نزدیک انتہائی مقدس مقام ہے، جہاں روزانہ سینکڑوں لاشیں جلائی جاتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شمشان گھاٹ پر روزانہ جلی ہوئی لاشوں کا دھواں فضا کو آلودہ کرتا ہے۔ لکڑی کی کمی کے باعث اکثر لاشیں مکمل طور پر نہیں جل پاتیں اور انہیں گنگا میں بہا دیا جاتا ہے۔ گنگا میں نہانے اور اس کا پانی پینے والے یہی نہیں جانتے کہ وہ پانی انسانی راکھ اور نجاست سے بھرا ہوتا ہے۔ قرآن کے مطابق انسان کی نجات صرف اللہ کی رضا اور اعمال صالحہ میں مضمر ہے نہ کہ کسی مخصوص مقام پر جلنے میں۔

اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایاکہ"اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور انہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت د ی”(سورة الاسرا ،70)، یہ آیت انسان کی عظمت کو واضح کرتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ اسلام میں ہر عمل انسانی شرف اور عزت کے مطابق ہوتا ہے۔ تدفین کا طریقہ اسلامی پاکیزگی، سادگی اور عزت نفس کے اصولوں پر مبنی ہے جبکہ جلانے کا عمل انسانی وقار کے برعکس اور وحشت ناک تصور ہے۔

رات کے وقت بنارس کے شمشان گھاٹ کا منظر اور بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ جلتی ہوئی چتائیں، ہر طرف دھواں، راکھ میں لپٹے انسانی سائے، بانسوں سے کھوپڑیوں کو توڑنے کی آوازیں اور گنگا میں بہتی ہوئی ادھ جلی لاشیں اور گنگا کنارے ان لاشوں کو بھنبھوڑ کتے اور دوسرے جانور،جہاں وحشت ہی وحشت ہو۔ کیا یہی وہ مقدس جگہ ہے جہاں مکتی حاصل ہوتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جگہ زمین پر جہنم کے ایک منظر سے کم نہیں۔

اسلام میں تدفین کا نظام اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسانی شرف اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ جبکہ ہندو مت میں چتا پر جلانے کا عمل نہ صرف بے رحمانہ ہے بلکہ ماحولیاتی اور انسانی صحت کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ہر عقل مند شخص اگر تدبر کرے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ قبر سکون، رحمت اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے جبکہ آگ اور راکھ کی دنیا عذاب اور بے سکونی کی علامت ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایاکہ "بے شک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی.” (سور ةالکہف 29)۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چتا کی یہ آگ اسی عذاب کی ایک جھلک ہو؟ ایک ایسی آگ جس میں ایک انسان کو جلتے ہوئے راکھ میں بدل دیا جاتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو لوگ دنیا میں اپنے پیاروں کو آگ میں جھونکنے کو مقدس سمجھتے ہیں، وہی آخرت میں بھی ایسی ہی آگ کے مستحق ٹھہریں؟

ذرا سوچئے اور ان سوالات کا جواب دیجئے کہ موت کے بعد تدفین یا چتا، کون سا راستہ بہتر ہے؟ کیا عزت و وقار کے ساتھ زمین کی آغوش میں سپرد کرنا زیادہ مناسب نہیں یا پھر جلتی چتا کی نذر کر دینا؟ کیا پاکیزگی اور سکون کی راہ افضل نہیں یا پھر آگ اور دھوئیں کی ہولناکی؟ فیصلہ عقل اور فطرت کے مطابق ہونا چاہیے کیونکہ انسان کا شرف اور آخری منزل ایک مقدس حقیقت ہے جس کا احترام ہر حال میں لازم ہے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں