معاشرہ اور بیٹی . تحریر: ام امیمہ (زہرا )
حیدر آباد میں کل قتل ہونے والی چار بچوں کی ماں عینی بلوچ کی ایک تصویر نظر سے گزری خوبصورت لڑکی دلہن کے روپ میں اپنی زندگی میں شامل ہونے والے محرم کے ساتھ خوش و خرم نظر آ رہی ہے ۔ساتھ ہی دوسری تصویر تھی جس میں بتایا جا رہا ہے کے محرم بن کر زندگی میں شامل ہونے والا اس سے جینے کا حق چھین گیا ۔
یاد رکھیے ! نہ تو یہ واقعہ پہلا ہے نہ ہی آخری لیکن قصور وار کہیں نہ کہیں ہم ہی ہیں ۔ بحثیت معاشرہ ہمارے اپنے قوانین ہیں نہ تو ہم اسلام نہ ہی قانون کے پابند ہیں۔ یہ کیا کہے گا وہ کیا کہے گا بیٹی واپس آ گئی اف اب کیا منہ دکھائیں ۔ ایسی ہزاروں باتیں جبکہ اسلام نے تو عورت کو معتبر کیا ۔ بیٹی کو اسلام نے بہت سے حقوق اور رتبے دیے وہ بیٹی جسے اسلام سے قبل زندہ درگور کیا جاتا تھا اسلام نے اسے وارثت میں حقدار ٹہرایا ۔ بیٹی کے ساتھ حسن سلوک پر بہت سی احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ ہے
مفہوم حدیث ہے !
” حضرت انس ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے ”
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے فرمایا
” جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز میں پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوں تو ان کی شادی کرے ) تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ملی ہوئی ہیں
(بحوالہ ترمذی ۔باب ماجاء فی النفقہ علی البنات )
لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کے ہم نے اسلام اور قانون سے مکمل رو گردانی کی اور اپنی دو اینچ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ۔
جہاں بیٹی کی طلاق اور خلع کو ہم نے اپنے ماتھے پر بد نما کلنک سے تعبیر کیا بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ بیٹی کی موت تو قبول کرتا ہے لیکن اگر اس کا شوہر اس پر عرصہ حیات تنگ کر دے تو اسے شوہر سے الگ ہو کر جینے کا حق نہیں دیتا
بہت افسوسناک لیکن تلخ حقیقت یہ ہے
” پہلے بیٹی دفنائی جاتی تھی اور اب بھی بہت سی جگہوں پر ایسا ہو رہا ہے فرق اتنا ہے ۔
اب بیاہی جاتی ہے ”
ہم اسلام سے محبت کے دعویدار رسول ﷺ کے عشق میں مر مٹنے والے ان کی تعلیمات سے منحرف کیوں ہوے؟
کیوں ہم بیٹی بہن ماں کو اسلام کے دیئے گئے اصولوں کے مطابق حقوق نہ دے سکے وارثت میں حصہ تو دور کی بات شادی کر کے گھر سے رخصت کرتے وقت واپس نہ آنے کی تاکید ایسے کرتے ہیں
کے بیٹی سمجھ جاتی ہے اب یہاں واپسی کی گجائش نہیں
پھر اگربد قسمتی سے شوہر کے روپ میں ظالم جابر شخص مل جائے تو یا تو ہمت ہار کر زندگی کا خاتمہ کرتی ہے ۔وجہ ؟
"اخلاقی معاشی جذباتی مدد کا نہ ہونا ”
یا وہ اس ظالم کے ہاتھوں ماری جاتی ہے
ہاں ! ایک تیسری قسم لڑکیوں کی جو جرات کرتی ہیں ہار نہیں مانتی اور خود اس ظلم سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیں
لیکن یقین جانئے ۔
وہ جتنی مضبوط پڑھی لکھی اور کمانے والی ہوں یہ معاشرہ ان کو قدم قدم خون کے آنسو رلاتا ہے وجہ ؟
ان کی زندگی میں شوہر کا نہ ہونا
تو خدا راہ آئیے !
خود سے ابتدا کریں خود کو بدلیں اپنی سوچ بدلیں مردہ بیٹی کے بجائے زندہ بیٹی کو کھلی باہوں سے قبول کریں زندگی نے اگر اسے دھوپ میں لا کھڑا کیا اس کے لئے سایہ دار درخت بن جائیں تاکہ پھر کوئی بیٹی قتل نہ کی جائے آئیں اپنے حصے کا چراغ جلائیں
@zarasani87