محبت بغاوت نہیں تحریر:منہال زاہد سخی

منہال زاہد سخی

دل کو جستجو اور لبوں کو عادت نہیں تھی
عشق کرکے نبھانے کی طاقت نہیں تھی

اٹھے اس بازار میں کئی امیدوار محبت کے
پر مجھ میں دل بانٹنے کی استطاعت نہیں تھی

مجرم تو بن گئے پر نوبت یہاں تک آ پہنچی
مجھے شریک جرم کی حاصل حمایت نہیں تھی

یوں سامنے سے گزرے یوں اس نے منہ پھیرا
مجھے تو گلی سے گزرنے کی اجازت نہیں تھی

وہ سامنے سے کچھ اور پیچھے سے کچھ
جب کھلے ان کے بھید تو ندامت نہیں تھی

تعلق نبھاتے ہوئے بھی وہ مفاد تولتے رہے
جو کچھ بھی کہ لو یہ شرافت نہیں تھی

نیت میں کھوٹ تھا اور سجدے بے فائیدہ
یہ کیسی دعا تھی عبادت نہیں تھی

ان کو ہوس تھی مال و دولت اور رتبہ کی
سب کچھ مل گیا پر عزت نہیں تھی

اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں یہ سمجھ کر وہ
جو ان کی ہوئی ہے وہ ذلالت نہیں تھی

خودی سے نہ نکلے رہے وہ تن پروری میں
نظر انداز کر گئے سب ذرہ سخاوت نہں تھی

اب آزاد ہوگیا میں فکروں سے ہجر کی رات
سکون میں سمائے ہوئے پر تھکاوٹ نہیں تھی

پھر میں سب فکروں سے آزاد تنہائی میں آ بسا
مجھ سے ملنے کو کسی کو فراغت نہیں تھی

اب جو انہوں نے ماتم کیا ہے پر زور سخی
تسلی دل تھی صدائے محبت بغاوت نہیں تھی

میں نے اس کو حافظے کے سہارے نہیں چھوڑا سخی
کہ بھول جائیں اور ساتھ یاداشت نہیں تھی

#قلم_سخی

Leave a reply